تازہ ترین

ہفتہ، 4 جنوری، 2025

دورِ جدید میں مذہبی رواداری اور تحمل کی اہمیت


دورِ جدید میں مذہبی رواداری اور تحمل کی اہمیت

احسن اعظم مستقیمی ششم عربی (ثانیہ)دورِ حاضر میں، جب دنیا گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے، انسانیت کو جن مہیب چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سب سے سنگین مذہبی عدم برداشت اور انتہا پسندی ہے۔ یہ فکری زہر معاشروں میں خلفشار، اخلاقی انحطاط، اور انسانی اقدار کی پامالی کا سبب بن رہا ہے۔ اس ہنگامہ خیز تناظر میں مذہبی رواداری اور تحمل کی ضرورت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے، جو عالمی امن، معاشرتی ہم آہنگی، اور فکری ارتقا کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔


*مذہبی رواداری: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں*
رواداری کا مفہوم یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کا احترام کریں، چاہے وہ ان سے اتفاق نہ رکھتے ہوں۔ قرآن مجید اس حوالے سے نہایت واضح اور جامع اصول پیش کرتا ہے: لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ
(تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین)
یہ آیت مبارکہ ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ ہر فرد کو اپنی مذہبی آزادی حاصل ہے اور کسی پر جبر روا نہیں۔ 

یہی اصول نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہمیں بارہا نظر آتا ہے۔ میثاقِ مدینہ اس کی ایک زندہ مثال ہے، جہاں مختلف مذاہب کے افراد کو نہ صرف مساوی حقوق دیے گئے بلکہ ان کے عقائد کا تحفظ بھی یقینی بنایا گیا۔


 *مذہبی عدم برداشت کے مضمرات* 
موجودہ دور میں مذہبی تعصبات اور انتہا پسندی کے اثرات نے معاشروں کو مختلف زاویوں سے متاثر کیا ہے:

۱. معاشرتی افتراق: مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان نفرت اور فاصلے بڑھ رہے ہیں۔
۲. تشدد اور جنگیں: مذہبی اختلافات کے باعث تشدد اور جنگوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
۳. انسانی اقدار کا زوال: عدم برداشت نے اخلاقی اصولوں اور انسانی ہم دردی کو مجروح کر دیا ہے۔
 *رواداری کے فوائد: عصری تناظر* 
مذہبی رواداری اور تحمل نہ صرف معاشرتی سکون بلکہ بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے بھی ناگزیر ہیں:


۱. معاشرتی ہم آہنگی: مختلف مذاہب کے مابین بھائی چارہ فروغ پاتا ہے۔
۲. علمی ترقی: فکری تنوع معاشرتی اور علمی ترقی کے دروازے کھولتا ہے۔
۳. عالمی امن کا استحکام: مذاہب کے احترام سے عالمی سطح پر کشیدگی کم کی جا سکتی ہے۔
 *مسائل کے حل کے لیے حکمتِ عملی* 


۱. تعلیمی نظام میں اصلاحات: ایسے نصاب کی تشکیل جو مذہبی تحمل اور رواداری کی تعلیم دے۔
۲. بین المذاہب مکالمہ: مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے درمیان مکالمہ فہم و ادراک کو بڑھانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔


۳. میڈیا کا مثبت کردار: میڈیا کو ایسا مواد نشر کرنا چاہیے جو محبت، برداشت اور امن کو فروغ دے۔
٤. قانون سازی: ایسے قوانین کا نفاذ جو مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کے خلاف سخت اقدامات کو یقینی بنائیں۔


 *اختتامیہ*  
مذہبی رواداری نہ صرف اسلامی تعلیمات کا جوہر ہے بلکہ ایک پرامن اور متوازن معاشرے کی تعمیر کے لیے بنیادی تقاضا بھی ہے۔ اس کے فروغ سے ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں جہاں تمام مذاہب کے افراد باہمی احترام کے ساتھ رہیں،


 اور نفرت و تعصب کی تاریکیاں محبت، امن، اور اخوت کی روشنی میں تحلیل ہو جائیں۔ یہی وہ نصب العین ہے جو انسانیت کو اخلاقی اور روحانی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے، اور یہی ہر مذہب کا حقیقی پیغام ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad