اسلام میں تعلیم کی اہمیت
تحریر : محمد جلیس :اسلام میں تعلیم کو نہایت بلند مقام اور غیر معمولی مرتبہ حاصل ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فرد کی شخصیت کو سنوارتی ہے بلکہ معاشرتی ترقی، اخلاقی معیار کے فروغ، اور انسانیت کی فلاح و بہبود میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں علم کے حصول کو دینی اور دنیاوی کامیابی کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں علم کو ایمان کی روح اور زندگی کی روشنی سے تعبیر کیا گیا ہے، جو انسان کو اس کے حقیقی مقصدِ تخلیق سے روشناس کراتا ہے۔ اس مضمون میں اسلام میں تعلیم کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اس کے متنوع پہلوؤں کا علمی اور فکری جائزہ پیش کیا جائے گا۔
*1. تعلیم کی الہامی اساس*
اسلامی تعلیمات کا جوہر علم ہے چنانچہ اسی وجہ سے قرآن کی پہلی وحی میں ہی تعلیم کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن مجید کی پہلی وحی:
*"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ"*
(العلق 96:1)
یہ نہ صرف تعلیم کی قدروقیمت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس کے الہامی پس منظر کو بھی واضح کرتی ہے۔ یہ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ علم کے ذریعے انسان اپنے خالق کو پہچانے، کائنات کے اسرار کو سمجھے، اور اپنے مقصدِ حیات کو حقیقت میں تبدیل کرے۔ علم کا یہ تصور محض دنیاوی ترقی تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کو اس کے روحانی سفر کے اعلیٰ مدارج تک پہنچانے کا ذریعہ بھی ہے۔
*2. معرفتِ الٰہی اور ایمان کی مضبوطی*
اسلام نے علم کو معرفتِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بارہا اپنے بندوں کو کائنات کے مظاہر پر غوروفکر کی دعوت دیتا ہے:
*"بے شک زمین اور آسمانوں کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں"* (آل عمران 3:190)
یہ دعوتِ فکر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ علم کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ علم ایمان کو تقویت بخشتا ہے اور انسان کو خالقِ کائنات کے قریب لے جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
*"علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"*
(سنن ابن ماجہ)
یہ ظاہر کرتا ہے کہ علم کا حصول کوئی اختیاری امر نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ ہے، جو ہر مسلمان پر عائد ہوتا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔
*3. تعلیم کا جامع اور متوازن تصور*
اسلام کا تصورِ تعلیم انتہائی جامع ہے، جو روحانی، اخلاقی، اور دنیاوی پہلوؤں کو یکجا کرتا ہے۔ مذہبی تعلیم انسان کو اس کے روحانی مقاصد اور اخلاقی اقدار سے روشناس کراتی ہے، جبکہ دنیاوی تعلیم اسے معاشرتی ترقی اور فلاح کے لیے تیار کرتی ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
*"اور ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو دنیا میں اپنا حصہ مانگتے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی"*
(البقرہ 2:201)
یہ تعلیم کے دینی اور دنیاوی پہلوؤں کے درمیان توازن کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، تاکہ انسان دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل کر سکے۔
*4. عورتوں کی تعلیم کا کلیدی کردار*
اسلام نے خواتین کی تعلیم پر خاص زور دیا ہے، کیونکہ ایک تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنے خاندان کی تعمیر کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام اس بات کی روشن مثال ہے کہ اسلام میں خواتین کی تعلیم کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے۔ وہ نہ صرف فقہ اور حدیث کی ماہر تھیں بلکہ ان کے علم سے کئی صحابہ کرام اور تابعین نے استفادہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
*"تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہترین سلوک کرے"*
یہ حدیث اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین معاشرتی بھلائی اور اخلاقی اقدار کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
*5. علم اور عمل کا امتزاج*
اسلام علم کو عمل کے بغیر ادھورا تصور کرتا ہے۔ قرآن مجید میں بارہا ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو علم رکھتے ہیں لیکن عمل سے عاری ہیں:
*"کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے برابر ہو سکتے ہیں؟"*
(الزمر 39:9)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ علم کا اصل مقصد انسان کی زندگی کو بہتر بنانا اور معاشرے میں انصاف، محبت، اور امن قائم کرنا ہے۔
*6. اسلامی تاریخ میں علم کا فروغ*
اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ علم اور تعلیم نے مسلمانوں کو دنیا کے ہر میدان میں برتری دلائی۔
ابن سینا، فارابی، اور امام غزالی جیسے مفکرین نے علم کے ذریعے وہ کارنامے انجام دیے جنہوں نے انسانی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان علمی، فکری، اور سائنسی میدان میں روشنی کے مینار تھے۔ یہ سب علم کی اہمیت اور اس کے عملی اطلاق کی بہترین مثالیں ہیں۔
*7. اخلاقی تربیت اور تعلیم کا رشتہ*
تعلیم کے ذریعے اخلاقی اقدار کی ترویج اسلام کا بنیادی مقصد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
*"میں اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں"*
یہ تعلیم کو محض معلومات کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ انسان کے کردار کو سنوارنے اور معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے قیام کا ذریعہ بناتا ہے۔
*8. نسلِ نو کی تعلیم اور تربیت*
اسلام نے آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت کو ایک اہم ذمہ داری قرار دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
*"اپنے بچوں کو ان کے زمانے کے مطابق تربیت دو، کیونکہ وہ تمہارے زمانے سے مختلف ہوگا"*
یہ تعلیم کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے، تاکہ مسلمان نئی دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
*9. اخلاص اور نیت کی پاکیزگی*
اسلام میں علم کے حصول میں اخلاص اور نیک نیتی کو کلیدی حیثیت دی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
*"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"*
یہ تعلیم کے میدان میں اخلاقی بنیاد فراہم کرتا ہے، تاکہ علم کا استعمال ذاتی مفادات کے بجائے انسانیت کی بھلائی کے لیے ہو۔
*نتیجہ*
اسلامی تعلیم کا مقصد محض دنیاوی کامیابی تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کی روحانی، اخلاقی، اور سماجی ترقی کے لیے ایک مکمل نظام فراہم کرتا ہے۔ علم اور عمل کے امتزاج سے ہی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے، جہاں انصاف، امن، اور ترقی کے اصول غالب ہوں۔ علم کے حصول کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہر مسلمان کا فرض ہے، تاکہ وہ نہ صرف اپنی ذات بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک مثال بن سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں