جب وہ خوش خصال آۓ
اشفاق اللہ خان ندوی
28/نومبر 2024 کی شام کو پیر طریقت ،رہبر شریعت،ایک عبقری شخصیت یعنی حضرت مولانا لیاقت علی خان صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ہمارے دل میں بھی یہ ارمان پیدا ہوا کہ اے کاش اگر حضور ہمارے بھی مہمان ہوجاتے تو ہمارے حوصلوں کو بھی جان مل جاتی۔ اور بغیر پر کے ہی پرواز کی طاقت مل جاتی۔
چہرے پہ خوشی آجاتی ہے آنکھوں میں سرور آجاتاہے
جب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آجاتا ہے
خدا خدا کر کے ہم نے بھی اپنی خواہش کا اظہار کیا حضور والا نے ہمارے خواہش کا احترام کرتے ہوئے آنے کی حامی بھر دی ،جب حضور نے آنے کی حامی بھر دی تو ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ہم تو مارے خوشی کے پاگل ہوئے جا رہے تھے مگر دوسری طرف اپنی بے سروسامانی، تنگ دامانی اور ایک اعلی شخصیت کی مہمان نوازی کا سوچ سوچ کر ہماری حالت بھی غالب کے اس شعر کی مصداق بن گئی تھی۔
*ہے خبر گرم ان کے آنے کی*
*آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا*
خیر حضرت والا کے اخلاق عالیہ، اوصاف طیبہ اور مزاج شریفہ سے توقع ہی نہیں بلکہ یقین کامل تھا کہ ان کی ذات والا صفات کے سامنے تکلفات وتصنعات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لئے ہم نے بھی کسی طرح کے تکلف اور تصنع کا کوئی لحاظ نہیں کیا۔ بلکہ سادہ طرز بود باش سے ان کو اپنا مہمان بنانے کی کوشش کی، احمد فراز کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے۔
*تم آۓ ہو تمھیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں*
*تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں*
ہم نے بھی ہر طرح کے تلکف سے احتراز کیا اور اپنے سادہ سے مکان میں حضرت والا کو زحمت تشریف اوری دے دی۔
*وہ آۓ گھر پہ ہمارے خدا کی قدرت ہے*
*کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں*
جیسے خبر ملی کہ حضرت والا مہراج گنج سے موضع پکڑی خرد کے لئے نکل پڑے ہیں۔ حضرت کےچاہنے والے دیوانوں کی ایک بھیڑ گاؤں سے دو کلومیٹر پہلے پھول مالاؤں کے ساتھ استقبال کے لئے پہنچ گئی۔ اور جیسے ہی حضرت کی گاڑی دکھائی دی نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر، سر بکف سر بلند، دیوبند دیوبند جیسے نعروں سے پورا گاؤں اور آس پاس کے علاقے گونج گئے۔
*کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے*
مولانا موصوف طے شدہ پروگرام کے تحت پہلے ہمارے غریب خانے کی زینت بنے اور اس کے بعد جامعہ عائشہ کے تعمیراتی کاموں کا جائزہ لینے کے لئے جامعہ عائشہ کے جاۓ وقوع پر تشریف لائے جہاں محبین و متوسلین کی ایک قابل قدر بھیڑ جمع تھی، جس میں پیر و جواں عالم و فاضل اور عصری علوم کے شناور بھی موجود تھے۔ وہاں پر موجود بزرگان دین اور گاؤں کے سابق پردھان نے پھولوں کا ہار پہنا کر پیر طریقت رہبر شریعت کو خوش آمدید کہا، اس کے بعد صاحب دیوان، خوش گلو شاعر، شان مہراج گنج جناب رفیع الدین رفیع نمعانی نے منظوم استقبالیہ پیش کیا، جسے سن کر سامعین و حاضرین نے واہ واہ بہت خوب کہتے ہوئے خوب داد وتحسین سے نوازا۔
منظوم استقبالیہ کے چند اشعار قارئین کے لئے۔
ہمارے گاؤں پکڑی خرد اک مہمان آئے ہیں
جو سچ پوچھو تو مولانا لیاقت خان آئے ہیں
خلیفہ آپ ہیں حضرت منیر احمد کے سنجیدہ
شریعت کے بنے رہبر وہی ذیشان آئے ہیں
طریقت خوب نازاں ہے جو مولانا لیاقت پر
لیے اخلاقِ حسنہ کے یہاں سلطان آئے ہیں
خطیب العصر ہیں یہ قاسمی بھی مرشدِ کامل
یہ روحانی خزائن بھی لیے عرفان آئے ہیں
شرف حاصل ہوا پروانچل کو مرحبا آمد
بچھاتے راہ میں پلکیں سبھی ہر آن آئے ہیں
عوام الناس گرویدہ ہوئی جن کی ولایت پر
سبھی کے واسطےخود فیض کا سامان آئے ہیں
یہ تلمیذِ رشید اعجاز احمد اعظمی ہیں ہی
سبھی لوگوں کے ہیں دھڑکن دلی ارمان آئے ہیں
یہ ہیں محبوب علماء کے نمونہ سلف کے بیشک
گلِ خوشتر کہوں یا سنبل و ریحان آئے ہیں
ریاکاری،طمع،حرص وہو سب اِن سے ہیں خائف
کہ اب پیر طریقت صاحبِ فیضان آئے ہیں
رفیع کی ہے دعا عمرِ خِضر مولا عطا فرما!
شرافت سے مزین نیک دل انسان آئے ہیں
اس شاندار استقبالیہ کے بعد حضرت پیر طریقت جنید وقت رومی دوراں۔ سرسید زماں نے مختصر مگر لاجواب خطاب فرمایا اور تعلق مع اللہ کو مضبوط کرنے کی تلقین اس رقت آمیز طریقے سے کی، کہ وہاں پر موجود ہر شخص نے اس کی حلاوت اپنے سینے کے اندر محسوس کی۔
مولانا لیاقت علی خان صاحب قاسمی کے اس بیان کے آئینے میں جب میں نے ان کی شخصیت کا جائزہ لیا تو برملا یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہونا پڑا
*اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاوں گا*
*اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤ گا*
یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ موصوف محترم ممدوح مکرم کے یمارے گاؤں آنے کی اطلاع جب جنگل کے آگ کی طرح پھیلی تو کچھ حلقوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں ،کچھ نے ہمیں کاسہ لیسی کا طعنہ دیا تو کچھ نے کہا کہ منھ بھرائی ملی ہوگی۔کچھ خیر خواہوں نے تو یہ بھی کہنے سے گریز نہیں کیا کہ موٹی رقم مل گئی ہوگی۔ مگر ان سب باتوں کی حضرت والا کی شخصیت، شفقت، اور محبت کے سامنے نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی ان کی کوئی حیثیت ہے۔
حضرت والا علامہ اقبال کے اس شعر
*نگہ بلند، سخن دل نواز، جان پرسوز*
*یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے*
کے قالب میں ڈھلے ہوئے ایک عبقری شخصیت ہیں جو خال خال ہی ملتی ہیں۔ یہ مہراج گنج کی سر زمین پر کھلنے والا وہ گلاب ہے۔ وہ سنبل و ریحان ہے جس کے کردار و گفتار کی خوشبو سے ان شاءاللہ پورا پروانچل ہی نہیں ملک کا گوشہ گوشہ مہکے گا۔
میں بصد خلوص حضرت مولانا لیاقت علی خان صاحب قاسمی کو وسیم بریلوی صاحب کے ان اشعار کا نذرانہ پیش کرکے اپنی بات مکمل کرتا ہوں۔
*مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر*
*راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا*
*تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں*
*میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا*
*ساری دنیا کی نظر میں ہے میرا عہد وفا*
*ایک تیرے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں