علی گڑھ مسلم یونیورسٹی: سر سید احمد خان کا خواب اور سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
تحریر: نازش احتشام اعظمی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار پر سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہندوستان کے تعلیمی منظرنامے اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ایک نہایت اہم موڑ ہے جو سر سید احمد خان کے خواب کی تکمیل اور اُن کے نظریے کی بحالی کی علامت ہے۔ سر سید، جو تعلیم و تدبر کی علامت اور ہندوستانی مسلمانوں کے حقیقی محسن تھے، نے جس خواب کی بنیاد رکھی تھی، آج اُس کی سرسبز اور شاداب شاخیں تاریخ کے ایک اور طوفان سے محفوظ کر لی گئی ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسی قانونی جنگ کا اختتام ہے جس نے کئی دہائیوں تک اس ادارے کی بنیاد کو ہلانے کی کوشش کی۔
سر سید احمد خان کا خواب، جو 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے قیام سے شروع ہوا تھا، درحقیقت ہندوستانی مسلمانوں کی فکری اور تعلیمی خودمختاری کی بنیاد تھا۔ برطانوی استعماری نظام کے شکنجوں میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کے لئے جدید تعلیم کے ذریعے ایک نیا افق پیش کرنا اُس وقت کے لئے ایک ناقابل یقین قدم تھا۔ سر سید نے ایک ایسا خواب دیکھا تھا جس میں ہندوستان کے مسلمان جدید علوم سے لیس ہوکر، ترقی کی راہوں پر قدم رکھیں اور مغربی علوم کو اپنی تہذیب و تمدن کے دائرے میں لاکر دنیا کا سامنا کریں۔ اس مقصد کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے انہوں نے ایم اے او کالج قائم کیا، جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گیا، اور جس کا ہر کمرہ، ہر دروازہ اور ہر پتھر سر سید کے عزم اور حوصلے کا آئینہ دار ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام محض ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد نہیں تھی بلکہ یہ مسلمانوں کے تعلیمی اور ثقافتی اثاثے کی بحالی اور فروغ کی ایک جدوجہد تھی۔ یہ ادارہ اُس خواب کا عکاس ہے جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آشنا کیا اور انہیں اس بات پر قائل کیا کہ تعلیم نہ صرف ان کی ترقی بلکہ اُن کے فکری اور تہذیبی استحکام کی ضامن ہے۔ سر سید نے اس مقصد کے لئے جس مضبوط بنیاد کی شروعات کی تھی، وہ آج بھی اے ایم یو کے ہر کونے میں محسوس کی جا سکتی ہے، اور اسی وجہ سے یہ ادارہ مسلمانوں کے لئے ایک میراث کی حیثیت رکھتا ہے۔
لیکن جیسے ہر عظیم خواب کو مکمل ہونے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اے ایم یو کو بھی اپنے اقلیتی کردار کے حصول اور تسلیم کے لئے ایک طویل اور دشوار قانونی سفر طے کرنا پڑا۔ اس سفر کا آغاز 1967 میں اس وقت ہوا جب سپریم کورٹ نے ایس عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا کیس میں فیصلہ دیا کہ اے ایم یو کو آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی ادارے کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے مسلمانوں کی تعلیمی خودمختاری کے تصور کو چیلنج کیا۔ لیکن، سر سید کا خواب اس قدر مضبوط تھا کہ یہ فیصلہ اس خواب کی روشنی کو ماند نہ کر سکا۔ 1981 میں پارلیمنٹ نے اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کرکے اس ادارے کے اقلیتی کردار کو تسلیم کرنے کی کوشش کی، مگر مخالف عناصر نے اس کو پھر چیلنج کیا اور الہ آباد ہائی کورٹ نے 2005 میں اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ یہ قانونی جنگ سپریم کورٹ تک پہنچی اور آج کے فیصلے نے ایک مرتبہ پھر سر سید احمد خان کے نظریے اور خواب کو زندہ کر دیا ہے۔
آج کے اس فیصلے کا اعلان، ایک تاریخی لمحات میں سے ہے جو نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بلکہ پورے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے اہم ہے۔ عدالت نے اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو تسلیم کرکے، ہندوستان میں اقلیتی برادریوں کو یہ پیغام دیا کہ ان کی تعلیمی خودمختاری کا احترام کیا جائے گا اور انہیں اپنے تعلیمی اداروں میں مخصوص نشستیں مختص کرنے اور اپنے اصولوں کے مطابق انتظام چلانے کی اجازت ہوگی۔ یہ فیصلہ ان تعلیمی اداروں کے لئے ایک نوید ہے جو اقلیتوں کی ثقافتی، تعلیمی اور تہذیبی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔
اے ایم یو کے اس فیصلے کا اثر صرف ایک تعلیمی ادارے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک قومی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کے لئے سنگ میل ثابت ہوگا۔ عدالت کا یہ اعتراف، اقلیتوں کے اس بنیادی حق کی توثیق کرتا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں کو اپنے تہذیبی اور ثقافتی شناخت کے مطابق چلائیں۔ یہ فیصلے ہندوستان کی تکثیریت اور مختلف ثقافتی برادریوں کے باہمی احترام کا ایک آئینہ دار ہے جو ایک ایسی فضا پیدا کرتا ہے جہاں ہر ایک کو اپنی شناخت، اپنی تہذیب، اور اپنے حقوق کا تحفظ حاصل ہو۔
یہ فیصلہ اے ایم یو کے لئے نئے امکانات کے دروازے کھولتا ہے اور اس کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے آزادی فراہم کرتا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں اے ایم یو مستقبل میں ایک ایسی تعلیمی فضا قائم کر سکے گا جہاں مسلمانوں کو اپنے تعلیمی مسائل کے حل کے لئے ایک بااختیار ماحول فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ ہندوستان کے دیگر اقلیتی اداروں کے لئے بھی امید کی کرن ہے کہ وہ اپنے مخصوص تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مزید قدم اٹھا سکیں گے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ، ایک تاریخی علامت کی حیثیت رکھتا ہے جو ہندوستانی قانون، اقلیتوں کے حقوق، اور تعلیم کی خودمختاری کے بارے میں ایک اہم پیغام دیتا ہے۔ یہ پیغام کہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہئے اور اقلیتوں کو اپنی شناخت کے تحفظ کے لئے آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔
آج کا فیصلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہندوستانی معاشرے کی تکثیریت میں اقلیتوں کے حقوق کا احترام ایک لازمی عنصر ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کو نہ صرف ان کی تعلیم کے حق میں بلکہ ان کی تہذیبی شناخت کے احترام میں بھی آزادی حاصل ہوگی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار تسلیم کرنا ایک ایسا قدم ہے جو ہندوستان میں تعلیمی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے لئے مشعل راہ بنے گا۔ یہ فیصلہ سر سید احمد خان کے اُس خواب کی تعبیر ہے جو انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے دیکھا تھا۔ آج، جب اے ایم یو کو اس کا اقلیتی کردار دوبارہ حاصل ہو چکا ہے، یہ سر سید کے خواب کی تکمیل ہے اور اُن کے وژن کی توثیق ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار صرف اس کی قانونی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ اس کے تعلیمی، سماجی اور ثقافتی کردار سے بھی جڑا ہوا ہے۔ سر سید احمد خان کا خواب تھا کہ علی گڑھ کا ادارہ ایک ایسی جگہ بنے جہاں مسلمان اپنی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی مذہبی و ثقافتی اقدار کو نہیں چھوڑیں گے۔ یونیورسٹی نے ہمیشہ اپنے اقلیتی کردار کو برقرار رکھا ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں کے معاشی و سماجی ترقی کی راہیں ہموار کی گئی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں