مسلم لڑکیوں کا ارتداد: ایک ہمہ گیر المیہ
نازش احتشام اعظمی
مسلم لڑکیوں میں ارتداد کا بڑھتا ہوا رجحان آج کے دور میں ایک بھیانک حقیقت بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو ہماری نسلوں کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ارتداد کا مسئلہ محض مذہب سے انحراف کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ روحانی، سماجی، اور فکری بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ المیہ ہمارے معاشرتی اور مذہبی ڈھانچے میں دراڑیں ڈال رہا ہے، اور اگر ہم اس کو نظر انداز کرتے رہے تو ہم ایک ایسی تباہی کی طرف بڑھیں گے جس کا کوئی علاج نہ ہو سکے گا۔
مغربی نظریات اور دین سے دوری
مسلم لڑکیوں میں ارتداد کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ مغربی نظریات کی یلغار ہے۔ مغربی تہذیب نے دنیا کو ایسے خواب دکھائے ہیں جو بظاہر خوبصورت اور پرکشش لگتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ خواب ایک گہرے تاریکی کے غار کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ نظریات آزادی کے نام پر فرد کو دین اور روحانیات سے الگ کر دیتے ہیں۔
یہ ایک فلسفہ ہے جو دنیا کو مادیت کی عینک سے دیکھتا ہے، جہاں دین کا کوئی مقام نہیں۔ جب ہماری نوجوان نسل، خاص طور پر لڑکیاں، اس فکری یلغار کی زد میں آتی ہیں، تو ان کے دل و دماغ میں شک اور الجھن پیدا ہوتی ہے۔ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ دین ان کی زندگی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے، اور وہ مغربی آزادی اور خود مختاری کے خوابوں کا پیچھا کرتے ہوئے اپنی اصل شناخت سے دور ہو جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا کا فتنہ
سوشل میڈیا اس مسئلے میں مزید پیچیدگی پیدا کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی وسیع دنیا میں گمراہ کن مواد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسے پلیٹ فارمز جہاں ہر طرح کی معلومات بآسانی دستیاب ہیں، وہاں دین مخالف پروپیگنڈا اور گمراہ کن خیالات نے نوجوان ذہنوں کو کنفیوژن کا شکار کر دیا ہے۔ لڑکیاں اکثر سوشل میڈیا پر ایسے سوالات اور نظریات سے واسطہ پڑتا ہے جو ان کے عقیدے کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں جی رہی ہیں جہاں دین کی پیروی قدامت پرستی اور جہالت کی علامت ہے، اور اس جدید دنیا میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
خاندانی غفلت اور تربیت کا فقدان
ایک اور بڑی وجہ خاندانی غفلت ہے۔ ہمارے معاشرتی نظام میں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی اور اخلاقی تربیت کریں۔ لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی بیٹیوں کو دنیاوی تعلیم اور آسائشوں کے پیچھے لگا دیتے ہیں، لیکن ان کی روحانی اور دینی تربیت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے گھروں میں دینی ماحول فراہم نہیں کریں گے، تو ہماری بچیاں دین سے دور ہو کر دنیاوی سراب میں کھو جائیں گی۔
محبت میں ناکامی اور نفسیاتی دباؤ
بعض اوقات ارتداد کا مسئلہ صرف فکری یا روحانی نہیں ہوتا، بلکہ اس کی جڑیں جذباتی اور نفسیاتی مسائل میں پیوست ہوتی ہیں۔ آج کے دور میں محبت میں ناکامی، معاشرتی دباؤ، اور خاندانی جھگڑوں نے نوجوان لڑکیوں کو شدید ذہنی اور جذباتی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ اپنے اندر پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کی کوشش میں دین سے دور ہو کر گمراہی کے راستے پر چل پڑتی ہیں۔ اس دوران اگر ان کی صحیح رہنمائی نہ ہو، تو وہ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ایسے راستے اختیار کرتی ہیں جو انہیں مزید اندھیرے میں دھکیل دیتے ہیں۔
معاشرتی دباؤ اور شناخت کا بحران
معاشرتی دباؤ بھی ایک اہم عنصر ہے جو مسلم لڑکیوں کو ارتداد کی طرف لے جا رہا ہے۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہی ہیں جو ان کی اسلامی شناخت کو قبول نہیں کرتا۔ سکولوں، کالجوں، اور ملازمتوں میں ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی دینی شناخت کو چھپائیں یا چھوڑ دیں۔ حجاب، نماز، اور اسلامی اخلاقیات کو پرانے خیالات سمجھا جاتا ہے، اور لڑکیاں اس دباؤ میں اپنی شناخت کھو دیتی ہیں۔
اصلاحی اداروں اور علماء کی خاموشی
ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اصلاحی ادارے اور علماء اس سنگین صورتحال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ہماری دینی قیادت نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور نہ ہی اس کے حل کے لیے کوئی مؤثر لائحہ عمل تیار کیا ہے۔ علماء کو چاہیے کہ وہ جدید دور کے چیلنجز کو سمجھیں اور نوجوان نسل کو دین کے راستے پر واپس لانے کے لیے نئے طریقے اپنائیں۔
تربیتِ اولاد: والدین کا عظیم فریضہ
والدین کی ذمہ داری صرف بچوں کو دنیاوی تعلیم دلانا نہیں، بلکہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت کرنا بھی ہے۔ اگر ہم اس فریضے میں ناکام ہو جائیں، تو یہ ہماری اولاد ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ناکامی ہے۔
دینی تعلیمات کی اہمیت
قرآن اور حدیث کی تعلیمات سے دوری نے ہماری نسلوں کو دین کی اصل روح سے محروم کر دیا ہے۔ جب بچپن میں بچوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور رسول اللہ ﷺ کی محبت بٹھائی جائے گی، تو وہ کبھی بھی دنیاوی فتنوں میں نہیں بہکیں گے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیمات سے روشناس کرائیں تاکہ وہ دنیا کے ہر فتنہ اور چیلنج کا سامنا ایمان کے ساتھ کر سکیں۔
دینی ماحول کا فروغ
اگر ہمارے گھروں میں دینی ماحول نہیں ہوگا، تو ہماری نسلیں کیسے دین پر مضبوطی سے قائم رہ سکیں گی؟ والدین کو خود بھی دین کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے ایک زندہ مثال بن سکیں۔ ایک صالح معاشرہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے گھروں میں دین کی روشنی کو پھیلائیں۔
دوستانہ ماحول اور صحبت کی اہمیت
بچوں کی تربیت میں ان کی صحبت کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اگر بچوں کو اچھے دوست اور ماحول میسر نہ ہو، تو وہ بری صحبت میں پڑ کر دین سے دور ہو سکتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی صحبت اور دوستوں پر نظر رکھیں تاکہ وہ کسی غلط راہ پر نہ چل پڑیں۔
تربیت میں روحانی رہنمائی کی ضرورت
تربیت میں روحانی رہنمائی کی اہمیت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جب بچیاں اللہ کے احکام کو اپنے دل سے قبول کرتی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کو اپنے دل میں بساتیں ہیں، تو دین سے تعلق مستحکم ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے دینی محافل، تربیتی سیشن، اور علمائے کرام کی نصیحتوں کو بچوں کی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
مستقبل کا فکر اور اصلاح کی ذمہ داری
مسلم معاشرے کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ مسئلہ محض انفرادی سطح کا نہیں بلکہ اجتماعی بحران کا عکس ہے۔ ہماری ہر کوشش کا محور یہ ہونا چاہیے کہ ہماری نسلیں اپنے دین پر فخر کریں اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ اس کے لیے والدین، علماء، اساتذہ، اور معاشرتی قیادت کو باہمی تعاون سے ایک ایسا نظام ترتیب دینا ہوگا جس میں بچوں کی فکری، روحانی، اور اخلاقی تربیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
نوجوان نسل کی رہنمائی اور فکری تربیت
آج کے دور میں صرف عبادات اور ظاہری اخلاقیات کی بات کافی نہیں۔ نوجوان نسل کو دین کی فکری بنیادیں سکھانا بھی لازم ہے۔ انہیں اسلامی فلسفہ، عقائد کی گہرائی، اور جدید نظریات کے حوالے سے دینی دلائل سے آگاہ کرنا ہوگا۔ یہ علمی تربیت انہیں خوداعتمادی فراہم کرے گی اور ان کے دین سے جڑے رہنے کا سبب بنے گی۔
نتیجہ: ایک بیداری کی اپیل
مسلم لڑکیوں میں ارتداد کا مسئلہ ایک قوم کے لیے روحانی زوال کا اعلان ہے۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جسے اگر وقت پر نہ سنبھالا گیا، تو یہ ناسور بن جائے گا۔ آج کا دن ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ والدین، علماء، اساتذہ، اور معاشرے کے تمام افراد کو مل کر اس فکری اور روحانی بحران کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
ہمیں اپنی بیٹیوں کو دین کی روشنی میں پروان چڑھانا ہوگا، انہیں دین کے اصولوں کے ساتھ مضبوطی سے جوڑنا ہوگا۔
یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، ورنہ کل کے اندھیرے میں ہم اپنی نسلوں کو کھو دیں گے۔یہ اجتماعی المیہ ہے جسے حل کرنے کے لیے تمام مسلمانوں کو اپنے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں