کچھ باتیں یو م اردو کے تعلق سے
( محمد خالد اعظمی )
۹/ نومبر ۱۹۷۷ کو علامہ اقبال کی پیدائش کے سوسال پورے ہونے پر حکومت پاکستان نے ۹ نومبر کو یوم اردو کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا تب سے پوری دنیا میں ہر سال ۹ نومبر کو یومُ اردو کے طور پر مختص کر لیا گیا ہے اور سالانہ یوم اردو اردو دِوَس، وِشو اردو دوس، اردو ڈے ورلڈ اردو ڈے ، عالمی اردو ڈے جیسے مانوس اور متبرک ناموں سے محبان اردو اب اردو ڈے مناتے ہیں۔
بڑے بڑے شامیانے، آڈیٹوریم اور ہال کے اندر بڑے سائز کے بینر پر ہندی اور انگریزی رسم الخط میں وشو اردو دوس ، ورلڈ اردو ڈے کے ساتھ اردو رسم الخط میں چھوٹا سا عالمی یوم اردو بھی لکھ کر اردو زبان کا حق ادا کر دیا جاتا ہے۔ اردوکی خدمت کرنے والے مہمان خصوصی ہائی ٹی ، ناشتہ ،لنچ / ڈنر شال اور میمنٹو کے ساتھ شبھ کا منائیں دیتے اور وصولتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں اگلے سال پھر اسی دھومُ دھام سے آنے کیلئے۔
الحمد لللہ حقیقت یہ ہے کہ عالمگیریت اور عالمی تجارتی منصوبہ بندی کے دور میں مختلف طرح کے یوم منانے کا سلسلہ بزنس کے بڑے مواقع پیدا کرتا ہے اور حقیقتاً یہ سب تجارتی نقطۂ نظر سے صرف منافع کمانے کیلئے ہی بنایا گیا ہے اور منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے، چاکلیٹ ڈے، روز ڈے، مدر ڈے ، فادر ڈے، ٹیچرز ڈے، چلڈرن ڈے جیسے بے شمار ڈے الگ الگ دنوں میں صرف ہندوستان میں ہی کروڑوں اور اربوں کا بزنس صرف ایک دن میں کرنے کی راہ ہموار کردیتے ہیں۔ آگے چل کر یوم اردو بھی اسی طرز پر بڑے بزنس کی راہ ہموار کرے گا۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ جیسے جیسے یوم اردو کی تقریبات پر تکلف اور قریہ بہ قریہ دراز ہو رہی ہیں، معاشرے میں اردو لکھنے پڑھنے والے افراد، اخبارات اور رسائل خریدنے والے لوگ ، انگریزی اور ہندی ذریعۂ تعلیم والے اسکولوں میں اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھنے والے طلبہ/ طالبات اور اس کیلئے کوشش کرنے والے والدین سرپرست اور سماجی تنظیمیں سب کے سب لگاتار معدوم ہوتے جارہے ہیں
۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئے کوئی بھی سنجیدہ کوشش کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے سوائے اردو ڈے، ورلڈ اردو ڈے اور وشو اردو دوس منانے کے جہاں عمدہ زبان و بیان اورخوبصورت لہجے میں اردو کا انداز بیان ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ( یو نو اردو از مائی فیورٹ لینگویج، آفٹر آل، یہ میری مدر لینگویج ہے، یا میں اپنی تقریروں میں انگلش کا کوئی ورڈ یوز نہیں کرتا وغیرہ ) اندازہ ہے کہ اس طرح کے اوسط درجے کے اشتہاری اور یاد گاری پروگرام میں منتظمین کے پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپئے تک ضرور خرچ ہو جاتے ہونگے اور اس سالانہ خرچ کا مقصد سوائے ادارہ جاتی اشتہار اور بزنس پروموشن کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
اس طرح کے اخراجات کی کچھ تعمیری شکل بھی ہو سکتی ہے لیکن اسے اپنانے کو کوئی تیار نہیں ہوسکتا۔ ایک لاکھ روپئے سے تقریباً پچاس گھروں میں ایک سال تک ایک اردو اخبار جاری کرایا جا سکتا ہے۔ تقریباً ساڑھے تین سو گھروں میں اوسط درجے کا ایک ماہانہ اردو رسالہ جاری کروایا جاسکتا ہے۔ ایک محلہ میں اردو کی ایک محلہ لائبریری مع مکان کے کرائے کے قائم ہو سکتی ہے ، ہندی انگریزی اسکولوں میں اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر شروع کر وانے کے لئے ایک اسکول میں دس مہینے تک ایک اردو استاد کی تنخواہ کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔
بہر حال اردو کو زندہ رکھنے کیلئے اگر یہ ہورہا ہے تویہ بھی قابل قدر ہے اور اس کوشش کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔لیکن سال میں ایک دن ایک چمکتا دمکتا پروگرام کر لینے سے یا اردو کا ایک دن منا لینے سے زبان ترقی نہیں کرسکتی جب تک ہم اس کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کروانے کی کوئی ٹھوس جدوجہد نہیں کرتے اور گھروں میں اردو پڑھنے اور اردو اخبار ورسائل جاری کروانے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔ افسوس ہوتا ہے کہ ارباب اردو جو یہ دن مناتے ہیں وہ خود اردو کی ترقی کے سلسلے میں غیر سنجیدہ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اردو اب صرف مدارس و مکاتب کے بھروسے زندہ ہے۔
مدارس میں اردو ذریعہ تعلیم ہے، وہاں اردو میں ہی کتابیں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں اور طلبہ صاف اردو زبان میں گفتگو کرتے ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ مدرسوں میں کہیں بھی یوم اردو منانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں