دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار
فیض الرحمن اقدس
جامعہ ہمدرد نئی دہلی :دنیا کے ہنگاموں میں گم، انسان اپنی اصل حقیقت کو کب کا بھلا چکا ہے۔ یہ زمین، جس پر زندگی کی کہانیوں کے اوراق پلٹتے ہیں، ایک عظیم مقصد کے تحت تخلیق کی گئی تھی، مگر انسان اپنی ذات کے خول میں سمٹ کر، اس راز سے بے خبر ہو چکا ہے۔ جب روح اپنی حقیقت سے بھٹک جائے، اور دل اندھیروں کی قید میں چھٹپٹانے لگے، تب ہی ایک روشنی نمودار ہوتی ہے۔ یہ روشنی دعوتِ حق کی ہے، جو دلوں کے زنگ کو دھو کر انہیں زندگی کی حقیقی سمت دکھاتی ہے۔
یہ دعوت انسان کے دل و دماغ کو جگاتی ہے، اسے مقصدِ حیات کی طرف لوٹاتی ہے، اور اُس آسمانی پیغام کی یاد دلاتی ہے جو تخلیق کے روزِ اوّل سے ہی اس کی روح کی گہرائیوں میں گونج رہا ہے۔ دعوتِ اسلام محض ایک صدا نہیں، بلکہ دلوں کو جھنجھوڑنے، دماغوں کو منور کرنے، اور انسانیت کو اپنے اصل مقام تک لے جانے کا وہ پیغام ہے جو ہر دور کے شور و غبار کو چھان کر حقیقت کا آئینہ پیش کرتا ہے۔
یہی وہ دعوت ہے جس نے بے سروسامانی کے عالم میں مکہ کی وادیوں سے اٹھی اور تاریخ کے ہر موڑ پر روشنی بن کر انسانیت کے قافلے کو اپنی منزل کی جانب رواں دواں رکھا۔
اس دعوت کی گونج آج بھی ہر دل میں موجود ہے، بس ایک داعی کی تلاش ہے، جو محبت، حکمت، اور اخلاص کے ساتھ انسان کو اس کے کھوئے ہوئے خزانے کا پتہ دے۔ کیا ہم وہ چراغ بن سکتے ہیں؟ کیا ہم وہ صدا بن سکتے ہیں جو تاریک راتوں میں بھٹکے مسافروں کے لیے امید کا پیغام بنے؟
آج کے دورِ جدید میں، جہاں مادیت اور مفاد پرستی نے انسانی رشتوں کو کھوکھلا کر دیا ہے، اسلامی دعوت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ یہ ایک داعی کے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو حکمت، نرمی، اور اخلاص کے ساتھ دوسروں تک پہنچائے۔ دعوتِ اسلام نہ صرف انفرادی اصلاح کا ذریعہ ہے، بلکہ یہ اقوام و معاشروں کو اخلاقی، سماجی، اور روحانی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ مضمون اسی عظیم مقصد کی وضاحت کرتا ہے: اسلامی دعوت کے مفہوم، اس کی اہمیت، اور داعی کے کردار کو ایک نئے انداز اور گہرے شعور کے ساتھ پیش کرنے کی ایک ادبی کاوش ہے۔
اسلامی دعوت: تعارف اور اہمیت
دعوت عربی زبان کے لفظ *دعا* سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں بلانا، پکارنا، یا دعوت دینا۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں، اسلامی دعوت کا مقصد انسانیت کو اللہ کی توحید، اس کے احکامات اور اسلام کی فطری حقانیت کی جانب متوجہ کرنا ہے۔ یہ محض کسی نظریے کی تبلیغ نہیں بلکہ ایک ایسے ہمہ گیر نظامِ حیات کی پیش کش ہے جو انسان کی روحانی، اخلاقی، اور سماجی ضرورتوں کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
*"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ، اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو بہترین ہو"* (سورہ النحل: 125)
یہ آیت دعوت کی بنیاد فراہم کرتی ہے، جس میں حکمت، محبت، اور نرمی کو لازمی عناصر قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دعوت کا مقصد صرف اسلام کے پیغام کو پہنچانا نہیں، بلکہ دلوں کو جیتنا اور انسانوں کو ان کی اصل حقیقت سے روشناس کرانا ہے۔
دعوت کی ذمہ داری اور اہمیت
اسلامی دعوت کو اجتماعی فریضہ یعنی *فرضِ کفایہ* قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر امت کا ایک حصہ یہ ذمہ داری بخوبی ادا کرے تو باقی افراد بری الذمہ ہو جائیں گے، لیکن اگر اس میں کوتاہی ہو تو پوری امت اس کی جواب دہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ کامیاب ہوں گے"* (سورہ آل عمران: 104)
دعوت محض زبانی بات نہیں بلکہ عملی نمونہ پیش کرنا ہے۔ داعی کا کردار اس کے پیغام کا عکس ہونا چاہیے۔ جب الفاظ کے ساتھ عمل کی شہادت ملتی ہے تو دعوت کا اثر دلوں کو جکڑ لیتا ہے اور انسان کو گہرے غور و فکر پر مجبور کر دیتا ہے۔
داعی: پیغام کا سفیر
داعی وہ شخص ہے جو اللہ کے پیغام کو لے کر انسانیت کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔ اس کے پاس الفاظ کی طاقت، کردار کی عظمت، اور حکمت کی روشنی ہوتی ہے۔ ایک داعی محض مبلغ نہیں بلکہ ایک معلم، مربی، اور رہنما ہوتا ہے۔ اس کی زبان میں نرمی، رویے میں عاجزی، اور دل میں انسانیت کی محبت ہوتی ہے۔
داعی کی چند لازمی خصوصیات درج ذیل ہیں:
1. علم کی گہرائی
داعی کو قرآن و سنت کے علم میں مہارت حاصل ہونی چاہیے۔ وہ اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کرے، سوالات کے جوابات دے، اور شکوک و شبہات کو دور کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"کہہ دیجیے، یہ میرا راستہ ہے؛ میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں"* (سورہ یوسف: 108)
2. اخلاصِ نیت
اخلاص ایک داعی کی اصل روح ہے۔ اگر نیت اللہ کی رضا کے بجائے دنیاوی مفاد ہو تو دعوت کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"* (صحیح بخاری)
3. صبر اور استقامت
دعوت کا راستہ کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ داعی کو سختیوں، مخالفتوں، اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی مثال دی:
"پس صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا"* (سورہ الاحقاف: 35)
4. کردار کی شفافیت
داعی کا کردار اس کے پیغام کی سچائی کا ثبوت ہوتا ہے۔ نرم گفتاری، عاجزی، اور خوش اخلاقی لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے اخلاق کی تعریف میں اللہ نے فرمایا:
*"اور بے شک آپ عظیم اخلاق پر ہیں"* (سورہ القلم: 4)
5. حکمت اور بصیرت
داعی کو اپنے سامعین کے مزاج، ثقافت، اور سوچ کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ہر فرد کے لیے ایک ہی طرزِ گفتگو موزوں نہیں ہوتا۔ حکمت کا مطلب ہے کہ مخاطب کے دل تک راستہ تلاش کیا جائے۔
دعوت کے چیلنجز اور داعی کا ردعمل
داعی کو ہر دور میں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے، لیکن آج کے جدید دور میں یہ چیلنجز زیادہ پیچیدہ اور متنوع ہو گئے ہیں۔
1. غلط فہمیاں اور منفی پروپیگنڈہ
اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ اور غلط فہمیاں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ داعی کو ان کا جواب حکمت، نرمی، اور دلیل کے ساتھ دینا چاہیے۔
2. اخلاقی زوال
ایک ایسے دور میں جہاں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں، داعی کا کردار مزید اہم ہو جاتا ہے۔ اسے اپنے عمل سے لوگوں کو یہ دکھانا ہے کہ اسلام انسانیت کی فلاح کا بہترین راستہ ہے۔
3. ثقافتی تنوع
مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے لوگوں کے ساتھ گفتگو کے لیے داعی کو وسیع علم اور کھلے دل و دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔
4. مایوسی اور بے عملی
دعوت کے میدان میں ناکامی یا لوگوں کی بے حسی سے مایوسی پیدا ہو سکتی ہے۔ داعی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے، اور اس کا فرض صرف پیغام پہنچانا ہے۔
دعوت کے مؤثر اصول
1. نرمی اور محبت
دعوت کا انداز ایسا ہو جو دلوں کو چھو لے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے فرمایا:
*"اگر آپ سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ جاتے"* (سورہ آل عمران: 159)
2. جبر سے گریز
اسلام نے ہر فرد کو آزادی دی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے دین کو قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
*"دین میں کوئی جبر نہیں"* (سورہ البقرہ: 256)
3. مشترکہ اقدار پر زور
دعوت کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مشترکہ اقدار پر گفتگو کی جائے، جیسے توحید، اخلاقیات، اور انسانیت کی خدمت۔
4. عمل کی گواہی
دعوت صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے بھی ہوتی ہے۔ ایک داعی کی زندگی اسلام کے اصولوں کی جیتی جاگتی مثال ہونی چاہیے۔
دعوت کے چیلنجز: ایک گہری نظر
موجودہ دور میں اسلامی دعوت کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، وہ نہ صرف پیچیدہ ہیں بلکہ ان کے حل کے لیے ایک داعی سے غیرمعمولی بصیرت اور حکمت عملی کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ چیلنجز اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ دعوت کا عمل نہایت ہی مدبرانہ اور موثر انداز میں انجام دیا جائے، تاکہ اس کے اثرات دلوں پر نقش اور زندگیوں کو منور کر سکیں۔
1. غلط فہمیوں کا ازالہ: ایک حکمت طلب ذمہ داری
اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی غلط فہمیاں ایک ایسا دیوارِ چین ہیں، جسے حکمت اور حقیقت کے اوزار سے ڈھانا ضروری ہے۔ ان غلط فہمیوں کی جڑیں اکثر میڈیا کی جانبداری اور غیرمصدقہ معلومات میں پنہاں ہیں، جنہوں نے اسلام کے روشن چہرے کو دھندلا دیا ہے۔ ایک داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے کردار اور گفتار سے اسلام کی حقیقی تصویر کو اجاگر کرے، تاکہ ان غیرمصدقہ بیانیوں کا ازالہ ہو اور حق واضح ہو سکے۔
2. نوجوانوں تک رسائی: وقت کی اہم ترین ضرورت
نوجوان نسل، جو جدید ٹیکنالوجی اور سیکولر نظریات کے زیرِ اثر پروان چڑھ رہی ہے، اسلامی دعوت کے میدان میں ایک اہم لیکن مشکل ہدف ہے۔ ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے دعوت کے پیغام کو جدید تقاضوں کے مطابق پیش کرنا ناگزیر ہے۔ سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور انٹرایکٹو مواد جیسے ذرائع دعوت کے لیے بے حد موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ حکمت عملی نہ صرف نوجوانوں کو اسلام کے قریب لانے کا ذریعہ بنے گی بلکہ انہیں دین کی گہرائیوں کو سمجھنے میں بھی مدد فراہم کرے گی۔
3. ذاتی اور دعوتی ذمہ داریوں میں توازن: ایک داعی کا امتحان
داعی کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے، جہاں اسے اپنے ذاتی فرائض اور دعوتی مشن کے درمیان نہایت متوازن رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس توازن کے بغیر، دعوتی کام میں استقامت ممکن نہیں۔ ایک داعی کو چاہیے کہ وہ اپنے وقت، توانائی، اور وسائل کو اس طرح تقسیم کرے کہ دعوت کے مشن اور ذاتی زندگی دونوں میں کامیابی ممکن ہو سکے۔
دعوت کے لیے نبی کریم ﷺ کا اسوہ: ایک مثالی رہنمائی
نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ اسلامی دعوت کے لیے کامل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ ان کا ہر عمل ایک داعی کے لیے روشنی کا مینار ہے۔
- *توحید سے آغاز:* نبی ﷺ کا پیغام ہمیشہ اللہ کی وحدانیت پر مرکوز رہا، جو دعوت کی بنیاد ہے۔
- *رشتے استوار کرنا:* آپ ﷺ نے لوگوں کے دلوں کو جیتنے کے لیے پہلے ان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا رشتہ قائم کیا۔
- *صبر اور استقامت:* مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود، آپ ﷺ کا صبر بے مثال تھا، جس سے ایک داعی کو حوصلہ ملتا ہے۔
- *حکمت اور نرمی:* نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ حکمت اور نرمی سے اپنا پیغام پیش کیا، تاکہ مخاطب کے دل میں جگہ بنائی جا سکے۔
اختتام: دعوت کا عالمگیر پیغام
دعوتِ اسلام محض ایک ذمہ داری نہیں بلکہ ایک مقدس مشن ہے، جو انسانیت کو حق، انصاف، اور امن کے راستے پر گامزن کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ یہ دلوں کو جوڑنے اور ذہنوں کو روشن کرنے کا عمل ہے، جو ایک داعی کے کردار، اخلاص، اور حکمت کے بغیر ممکن نہیں۔
اس دنیا میں، جہاں بدگمانی اور اختلافات کا غلبہ ہے، اسلامی دعوت انسانیت کے لیے امن اور محبت کا پیغام ہے۔ یہ ایک ایسا پل ہے جو انسانوں کو ان کے خالق کے قریب اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی میں جینے کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے، دعوت کو ایک زندہ مثال بنایا جا سکتا ہے، تاکہ دنیا اس عظیم پیغام کی روشنی میں اپنی منزل پا سکے۔
یوں، اسلامی دعوت نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ زندگی کو مقصد، معاشروں کو نظام، اور انسانیت کو وقار بخشنے کا ایک انمول ذریعہ بھی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں