دارالصنفین کی مالیات کا مسئلہ : کیا کوئی دیرپا اور مستقل حل ہے ؟
محمد خالد اعظمی
استاذ شعبہ معاشیات شبلی کالج اعظم گڑھ
دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ علامہ شبلی اور انکے رفقاء و تلامذہ کے ذریعہ قائم کردہ عالمی شہرت کا ادارہ ہے۔ زائد از ایک صدی یہ ادارہ لگاتار علم و ادب اور تاریخ واسلامیات پر تحقیقی کتابیں اور مقالے اور دیگر تصانیف شائع کرتا رہا ہے۔
معارف شبلی اکیڈمی کا ترجمان ایک موقر جریدہ اور اپنے آپ میں عالمی شہرت کا حامل تحقیقی رسالہ ہے جو ۱۹۱۶ سے لگاتار شائع ہورہا ہے ۔مختلف وقتوں میں اس کے الگ الگ ناظم ( ڈائرکٹر) رہے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیت اور موجود وسائل کے ساتھ اس ادارے کی ترقی اور استحکام میں اپنا کردار ادا کیا۔ ۲۰۰۸ میں مولانا ضیاء الدین اصلاحی (رح )کے انتقال کے بعد مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے شعبئہ تاریخ کے ریٹائرڈ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی صاحب شبلی اکیڈمی کے ناظم منتخب ہوئے۔
جب تک وہ دارالمصنفین کے ناظم اعلی رہے، انہوں نے بھی ادارے کی تعمیر و ترقی اور اس کی علمی خدمات کے فروغ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ رفقاء اور ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے لیکر عمارات کی تزئین کاری، معارف کا سرکولیشن کتابوں کی ازسر نو اشاعت اور تاریخی شبلی صد سالہ سیمینار اور اسی سے متعلق اگلے سال معارف اور پھر اسی تسلسل میں سرسید و حالی پر سیمینار کروانا بھی انہیں کی محنت شاقہ کا کارنامہ ہے۔
ادارے سے ظلی صاحب کے سبکدوش ہونے کے بعد ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں ( ملی گزٹ کے اڈیٹر اور مشہور عالم دین مولانا وحید الدین خاں مرحوم کے صاحب زادے ) دارالمصنفین کے ڈائریکٹر منتخب ہوئے ہیں۔ موصوف ایک صاحب علم شخصیت ہونے کے ساتھ ملت کے مسائل و انکے حل کے تعلق سے بھی لگا تار متحرک رہتے ہیں ۔ شبلی اکیڈمی کی وسعت اور اس کے بنیادی مقاصد کی ترقی کیلئے کے لئے بھی متفکر رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ادارہ لگاتار مالی وسائل کی کمی اور چند دیگر انتظامی مشکلات سے دوچار ہے۔
ظفرلاسلام خاں کا قیام اگرچہ مستقل طور پر دہلی میں رہتاہے لیکن وہ اکیڈمی کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کے لئے اعظم گڑھ آتے رہتے ہیں ۔بڑھتی عمر کے ساتھ چند ماہ سے وہ صحت کے دیگر مسائل کی وجہ سے بھی وہ اعظم گڑھ آنے کیلئے فعال نہیں رہ پا رہے ہیں ۔
ان کے نائب کے طور پر ڈاکٹر فخرلاسلام اصلاحی صاحب ( ریٹائرڈ لکچرر شعبئہ عربی ، شبلی نیشنل کالج ) یہاں کے انتظامی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کر نے کیلئے ہمہ وقت تیار بھی رہتے ہیں۔
اس وقت دارالمصنفین کا سب سے بڑا مسئلہ ہر مہینے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا ہے اور ادارے کا کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے ہر مہینے ذمہ داران کیلئے یہ پریشانی ایک بڑا درد سر ہوتی ہے ۔ مالیات کا کوئی مستقل ذریعہ اور نظم نہ ہونے اور اخراجات پر کسی طرح قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے ادارہ مستقل طور پر مالی مسائل کا شکار رہتاہے۔ ادھر کچھ سال کے اندر اس مسئلے کے حل کیلئے ذمہ داران نے ادارہ کی بنیادی نوعیت کو تبدیل کرتے ہوئے دو کام کئے ۔
۱- ادارے کی عمارت کا ایک حصہ جو سڑک کی جانب ہے اس میں کچھ ترمیم کرکے ۲۰ دوکانیں نکالیں جنہیں ایک مخصوص سیکیوریٹی رقم لے کر دوکانیں کرائے پر اٹھا دیں جس سے ہر مہینہ کچھ رقم کرائے کی مد میں اکیڈمی کو مل جاتی ہے۔ اگر چہ اس سے بھی کوئی خاص مالی اعانت نہیں ہوپائی البتہ شبلی اکیڈمی پر عوامی سطح پراعتراضات ہونے شروع ہو گئے کہ ایک ایسا اثاثہ یا جائداد جوکہ صرف تعلیمی اور تحقیقی مقصد کے فروغ کیلئے شبلی اور ان کے مخلص اعزہ واقفین نے وقف تھی اس کی بنیادی نوعیت اور حیثیت کو تجارتی مقاصد کیلئے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
۲- ایک دومنزلہ عمارت جوکہ گورنمنٹ کے خرچ پر ( ممبر آف پارلیامنٹ فنڈ) لائبریری کے لئے تعمیر ہوئی تھی لیکن ادارہ اسے لائبریری کے طور پر استعمال نہیں کر رہاتھا کیونکہ پرانی لائبریری کی عمارت ضروت کے لئے کافی ہے۔ منتظمین نے اس عمارت کو کچھ لوگوں کو ریزڈنشیل کوچنگ کھولنے کیلئے کرائے پر دے دیا گیا۔ کوچنگ کھل گئی اور سول سروسز کی تیاری کیلئے بچے بچیوں کی مخلوط کوچنگ شروع ہوگئی ۔
اس پر بھی بہت اعراضات ہیں کہ دارالمصنفین کا کیمپس اب تحقیقی ادارے کا نہیں رہ گیا بلکہ اس کی حیثیت اب ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کی ہوگئی جہاں دن رات طلبہ طالبات گھومتے رہتے ہیں۔ اعظم گڑھ اور خاص طور سے شبلی اکیڈمی سے جذباتی و مخلصانہ تعلق رکھنے والے لوگوں یہ ساری باتیں پسند نہیں آرہی ہیں اسلئے ادارے کی عمارت کو کرائے پر اٹھانے پر بھی بہت اعتراضات ہیں ۔
شبلی اکیڈمی کے ملازمین اور رفقاء روایتی طور پر تحقیق و تدوین کیلئے الاٹ کئے گئے مخصوص پروجیکٹ پر ریسرچ کا کام کرتے ہیں اور دئے ہوئے وقت کے اندر یہ پروجیکٹ مکمل کرنے کی روایت رہی ہے لیکن ادھر بہت دنوں سے اکیڈمی کا یہ تحقیقی کام بھی کافی متاثر ہے اور کوئی قابل ذکر تحقیقی کام ہوئے بھی کافی دن ہوگئے نیز رفقا وملازمین کے کاموں کا احتساب اور کام یا پروجیکٹ مکمل نہ ہونے کی صورت میں ان کی سرزنش وغیرہ کا کوئی بھی نظم نہیں ہے۔
یہ باتیں ہیں جس پر آج کل اکیڈمی کے اندر اور باہر اعتراض جاری ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اپنی جگہ پھر بھی موجود ہے کہ اگر مزکورہ بالا دونوں کام نہ کئے جاتے تو مالی وسائل پر قابو پانے اور تنخواہ وغیرہ کے اخراجات کیسے پورے ہو سکتے ہیں۔ اکیڈمی کی مستقل آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، معارف کی رکنیت اور خریداری بھی کم ہوتی جارہی ہے، ادارے کا اپنا بالکل جدید نوعیت کا پرنٹنگ پریس ہے لیکن اسے بھی ادارہ تجارتی بنیاد پر چلانے میں ناکام ہے۔ ادارے سے شائع اردو کتابیں بھی اب بہت کم فروخت ہوتی ہیں۔
ضرورت ہے کہ شبلی اکیڈمی میں طباعت اور کتابوں کی فروخت کا کام مکملُ تجارتی بنیادوں پر جدید انداز سے کیا جائے اور اندرونی وسائل کو متحرک کرکے آمدنی اور اخراجات کا توازن مالی وسائل کے مطابق کیا جائے ۔
یہی سب مسائل ہیں جس کی وجہ سے اکیڈمی کے منتظمین خود بھی پریشان ہیں اور لوگ آج کل شبلی اکیڈمی پر اعتراضات بھی انہیں سب کو لے کر کر رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اس قدیم اور قابل ستائش ورثہ ادارے کے مسائل کے حل کی کوئی سبیل پیدا فرمادے اور ہمارے بزرگوں کی کوششوں اور قربانیوں کو ضائع ہونے سے بچالے، آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں