موٹیویشنل اسپیکر : پیسہ کمانے کا سستا اور آسان ذریعہ
( محمد خالد اعظمی )
آج کل ہمارے ملک میں اور بطور خاص مسلمانوں کے اسکولوں اور اداروں میں موٹیویشنل اسپیکرز کو مدعو کرنے اور ان سے تقریریں کروانے کا دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک نیا فیشن شروع ہوگیا ہے۔ ابھی چند سال پہلے تک بچوں کی تعلیمی حوصلہ افزائی یا ترغیبات کیلئے اس طرح کا کوئی پیشہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔
یہ ترغیبی مقررین ( موٹیویشنل اسپیکر) لوگ ایک اسکول یا اداری میں ایک لکچر کیلئے منتظمین سے موٹی رقم وصول کرتے ہیں اور اس سے طلبہ و سرپرستوں کو کتنا اور کس طرح کا فائدہ ہوتا ہے یہ مجھے بالکل سمجھ میں نہیں آتا۔ بلکہ کہیں کہیں تو ‘تو مجھے حاجی بگویم میں تجھے ملا بگو ‘ والا مقولہ بھی یاد آتا ہے ۔مثال کے طور پر، یہ لوگ صرف یہ بتانے کیلئے کہ پیسہ ہاتھ کا میل ہوتا ہے،
ایک ایک لاکھ روپیہ وصول کرلیتے ہیں۔ یہ لوگ آدھا گھنٹہ صرف اپنی تعریف میں گزارتے ہیں اور باقی آدھا گھنٹہ اس ادارے یا شخص کی تعریف میں رطب اللسان جس نے انہیں مدعو کیا ہے اور درمیان میں تھوڑی دیر طلبہ کو انگیج رکھنے کیلئے والدین اور اساتذہ کی خدمت کرنے کا مشورہ اور طریقہ بتانے لگتے ہیں ۔
مجھے بہت حیرانی ہوتی ہے جب میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو ان کی چرب زبانی پر واہ واہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں اور بڑے بڑے اسکولوں میں جب یہ بطور موٹیویشنل اسپیکر مدعو کئے جاتے تو انہیں وہاں دیکھ کر یا انہیں سن کر افسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک اچھا خاصا پیشہ بن گیا ہے اور مسلم اقلیتی اسکولوں میں آج کل اس طرح کے مقررین کو بلانے کا ایک فیشن سا چل پڑا ہے ، مجھے تو یہ پورا پیشہ ہی صرف چرب زبانی کا اشتہار لگتا ہے ۔
یہ لوگ زبانی بات کرنے کے علاوہ زندگی کے کسی خاص فن یا تخلیقی صلاحیت کے ماہر بھی نہیں ہوتے نہ ہی کسی ادارے یا کمپنی کو اپنی ذاتی صلاحیت اور مو ٹیویشن کی بنیاد پر ٹاپ پر پہنچایا ہوا ہوتا ہے، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اپنی تعلیم پوری کرنے کے بعد مختلف میدانوں میں تگ و دو اور پھر ناکامی کے بعد یہ لوگ اس پیشے کو اپنا لیتے ہیں جس میں بنا ہرٌے پھٹکری کے خوب چوکھا رنگ آنے لگتا ہے۔
نہ ان کی صلاحیت اور کامیابی ناپنے کا کوئی پیمانہ ہے اور نہ ہی کسی نفسیاتی یا تعلیمی اسکیل پر اس کی پیمائش کرکے اس کے نتائج کا تجزیہ کیا جاتا ہے، بس لچھے دار تقریر ، بڑی بڑی باتیں اور خود ستائشی جملوں کے علاوہ اور کچھ نہیں لیکن طلبہ والدین اور اساتذہ کو انہیں سننے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے ۔
مغربی ممالک میں اور خود ہمارے ملک میں بھی TED TALK یا Moth اور ان جیسے دوسرے پلیٹ فارمز پر ان لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جنہوں نے بالکل زیرو سے شروع کر کے خود اپنی ذاتی صلاحیت اور قابلیت سے کوئی بڑا مقام حاصل کیا ہے
وہ لوگ اپنے مسائل وسائل اور تجربات بتاتے ہیں اور اپنی ذاتی زندگی کے حقائق سے لوگوں کو روشناش کراتے ہیں جسے سن کر اور جان کر طلبہ کے اندر بھی اسی طرز پر کچھ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے ۔ممبئی کی مشہور ڈاکٹر روشن کی اسپیچ اس کی ایک مثال ہو سکتی ہے جس میں وہ اپنی زندگی کے ان حالات کا ذکر کرتی ہیں کہ کیسے طالب علمی کے بالکل شروعاتی یا ثانوی دور میں ممبئی کی لوکل ٹرین سے گر کر ان کا دونوں پیر کٹ گیا تھا اور بالکل غریب خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں اپنی ذاتی محنت اور لگن سے ایم بی بی ایس اور ایم ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور اس وقت ایک کامیاب ڈاکٹر ہیں ۔
اپنے تعلیمی سفر کے تجربات جب وہ بیان کرتی ہیں تو بطور خاص غریب گھرانوں کی طالبات کو حوصلہ اور ہمت ملتی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سارے اعلی افسران اور تعلیمی ماہرین ہیں جنہوں نے بالکل ہی غیر موافق ماحول اور والدین کی غربت و تنگدستی کے باوجود صرف ذاتی لگن اور محنت سے معاشرے میں نہایت اونچا مقام حاصل کیا- اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں جہاں لوگ اس طرح کے پروگرام میں اپنے ذاتی تجربات شیئر کرتے ہیں
اور کم وسائل والے طلبہ یا والدین کو اس سے حوصلہ ملتا ہے۔ لیکن ان پیشہ ور موٹیویشنل اسپیکرز کے پاس عام طور سے اپنا اس طرح ک کوئی ذاتی تجربہ نہیں ہوتا جس سے ثابت ہو کہ انہوں نے کن لوگوں یا اداروں کو اپنی اسپیچ کے ذریعہ اوپر اٹھا یا ہے .
یا ان تجربات کے ذریعہ بچوں کو موٹیویٹ کرسکیں ۔ تقریر کے بجائے تجربات انسان کو زیادہ سکھا تے ہیں اس لئے ان لوگوں کو سننا چاہئے جن کا اپنا کوئی ذاتی تجربہ یا محنت اور لگن ہو جس سے انہوں نے لوگوں کی یا خود اپنی زندگی کو تبدیل کیا ہو، یہی تجربہ دوسرے لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے
۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں