مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی مسائل: علی گڑھ تحریک کی روشنی میں
ڈاکٹر جان عالم
IAS
چیف سکریٹری
حکومت ناگالینڈ
خلاصہ:
انیسویں صدی کا ہندوستان زوال پذیر اور پُرآشوب دور سے گزر رہا تھا۔ ایک ایسی قوم جو صدیوں تک عروج کی منزلیں طے کر چکی تھی، اپنے ہی وطن میں بے وزن ہو چکی تھی۔ انہی گھنے اندھیروں میں ایک روشن ستارہ، سر سید احمد خان، اپنی بصیرت اور جگرسوزی کے ساتھ علی گڑھ تحریک کا علم بلند کرتا ہے، جس نے نہ صرف مسلمانوں کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگایا، بلکہ انہیں جدیدیت کے سمندر میں بھی طلاطم کا سامنا کرنے کے قابل بنایا۔ یہ مقالہ اسی تاریخی تناظر میں مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی مسائل کا گہرائی سے تجزیہ کرتا ہے، اور علی گڑھ تحریک کو اس کے جواب کے طور پر پیش کرتا ہے۔
تعارف:
تصور کیجئے وہ وقت جب عظیم مغل سلطنت کے نشان دھندلا چکے تھے۔ دہلی کی گلیوں میں جہاں کبھی مسلم حکمرانوں کی شان و شوکت گونجتی تھی، اب وہاں شکستہ حال عمارتیں اور مغلوب دلوں کی سرد آہیں تھیں۔ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی یادیں، جو کبھی ان کی شناخت کا حصہ تھیں، اب ماضی کے دُھندلکے میں گم ہو چکی تھیں۔
برطانوی استعمار کی کٹھن گرفت میں جکڑے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو بیک وقت سماجی، اقتصادی، اور تعلیمی پسماندگی کا سامنا تھا۔ ان کی آنکھوں میں مایوسی اور دلوں میں بوجھل پن کا غلبہ تھا۔ وہ لوگ، جو ایک دور میں علم و حکمت کے چراغ روشن کرتے تھے، اب خود جہالت کی تاریکی میں ٹھوکریں کھا رہے تھے۔
اسی گھمبیر پس منظر میں، علی گڑھ تحریک کا پرچم بلند ہوا۔ یہ کوئی معمولی تحریک نہ تھی، بلکہ ایک فکری اور روحانی انقلاب تھا جو مسلمانوں کو نئی سمت دکھانے آیا تھا۔ سر سید احمد خان کی زیر قیادت، یہ تحریک ایک نئی روشنی بن کر اُبھری، جس نے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی قوم کو ترقی کی راہ دکھائی۔
تاریخی پس منظر:
جس وقت مغلوں کی عظیم سلطنت کا سورج غروب ہو رہا تھا، مسلمان سیاسی اقتدار اور سماجی وقار کے ساتھ ساتھ اپنی اقتصادی بنیادوں سے بھی محروم ہو رہے تھے۔ وہ طبقہ جو کبھی ملک کا حکمران تھا، اب نہ صرف اقتدار سے بے دخل ہو چکا تھا، بلکہ معاشی اعتبار سے بھی برطانیہ کے نئے نظام کے سامنے بے دست و پا تھا۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد، مسلمانوں کے خلاف تعصب اور شکوک و شبہات کے بادل اور گہرے ہو گئے، اور وہ حکومتی ملازمتوں اور تعلیمی اداروں سے کٹ کر رہ گئے۔
یہ ایک ایسا دور تھا جب مسلمان اپنے ہی وطن میں اجنبی بن چکے تھے۔ ان کی زبان، ثقافت، اور مذہب پر شدید حملے ہو رہے تھے، اور وہ اپنے آپ کو توازن کھوتے ہوئے محسوس کر رہے تھے۔ ان کی جڑیں ہل چکی تھیں، اور وہ ایک گہرے اندھیرے میں غوطہ زن تھے۔
مسلمانوں کو درپیش سماجی مسائل:
- تعلیمی جمود:مسلمانوں کی تعلیمی حالت اس وقت اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ وہ جدید دنیا کی رفتار سے بالکل ناآشنا تھے۔ ان کے روایتی مدارس میں دی جانے والی تعلیم انہیں نئے دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل نہیں بنا رہی تھی۔
- *ثقافتی انحطاط:* مغربی تہذیب کا عروج اور برطانوی تسلط نے مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کو سخت آزمائش میں ڈال دیا۔ وہ اپنی روایات سے چمٹے رہنا چاہتے تھے، مگر وقت کی تیز رفتاری انہیں کھینچ کر ایک نئے دور میں لے جا رہی تھی۔
- سماجی جمود: تعلیمی پسماندگی اور ثقافتی بے یقینی نے مسلمانوں کو سماجی میدان میں ایک جمود کا شکار بنا دیا تھا۔ وہ کسی نئی فکر یا اصلاح کی طرف بڑھنے کی بجائے، ایک محدود دائرے میں قید ہو چکے تھے۔
مسلمانوں کو درپیش اقتصادی مسائل:
- جاگیرداری کا زوال: مغلیہ سلطنت کے زوال اور برطانوی نوآبادیاتی نظام کے قیام نے مسلمانوں کی جاگیرداری اور زمینداری کو بُری طرح متاثر کیا۔ ان کی اقتصادی طاقت، جو زمینوں اور جاگیروں پر منحصر تھی، ختم ہوتی چلی گئی۔
- کاروباری پسماندگی:برطانوی تجارتی نظام میں مسلمانوں کو مواقع کم ملے۔ انگریزی تعلیم اور جدید مہارتوں کی کمی نے انہیں اقتصادی دوڑ سے باہر کر دیا، اور وہ غربت اور محرومی کا شکار ہو گئے۔
-
علی گڑھ تحریک: نئی زندگی کا پیغام
سر سید احمد خان کی قیادت میں علی گڑھ تحریک ایک فکری انقلاب کے طور پر ابھری۔ یہ تحریک کسی عام تعلیمی اصلاح سے کہیں بڑھ کر تھی؛ یہ ایک قوم کے ماضی، حال اور مستقبل کا ایک جامع منصوبہ تھی۔
- تعلیمی میدان میں انقلاب: سر سید نے مسلمانوں کے تعلیمی نظام میں جدیدیت کی ضرورت کو سمجھا اور 1875 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی۔ یہ کالج ایک ایسا ادارہ تھا جہاں جدید علوم اور انگریزی زبان کو فروغ دیا گیا، تاکہ مسلمان نئی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔
- عقلیت پسندی کی ترویج: سر سید نے مسلمانوں کو سائنسی اور عقلی سوچ اپنانے کی دعوت دی۔ انہوں نے مسلمانوں کو اس بات کا شعور دلایا کہ مذہبی عقائد اور سائنسی ترقی ایک دوسرے سے متصادم نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
علی گڑھ تحریک کا اثر:
یہ تحریک صرف ایک تعلیمی اصلاح نہیں تھی، بلکہ ایک قوم کو نئی زندگی دینے کا ذریعہ بنی۔ علی گڑھ تحریک کے اثرات نہ صرف مسلمانوں کے تعلیمی میدان میں محسوس کیے گئے، بلکہ ان کی سماجی اور اقتصادی حالت میں بھی تبدیلی آئی۔ وہ مسلمان جو مایوسی اور محرومی کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، اب ایک نئی سمت میں سفر شروع کر چکے تھے۔
علی گڑھ تحریک نے ایک ایسے طبقے کو جنم دیا جو جدید تعلیم یافتہ تھا اور سیاسی، سماجی، اور اقتصادی میدانوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے قابل تھا۔ یہ تحریک ایک نئی فکری روشنی کی مانند تھی، جو مسلمانوں کے لئے کامیابی اور ترقی کا پیغام لائی۔
نتیجہ:
علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کو ان کے سماجی اور اقتصادی زوال سے نکال کر ایک نئی راہ دکھائی۔ سر سید احمد خان کی بصیرت اور قیادت نے مسلمانوں کو ایک ایسے دور میں داخل کیا جہاں جدیدیت اور روایات کے مابین توازن قائم تھا۔ یہ تحریک آج بھی ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے، جو ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تعلیمی، سماجی، اور اقتصادی ترقی ہی قوموں کی بقا کا ضامن ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں