حجاب کی اہمیت و افادیت
اللہ رب العزت نے ہمیں دین اسلام کے پاک احکامات سے نوازا ، پھر ہمیں ایک ایسی شریعت دی جس میں جسم و روح کی پاکیزگی کا بہترین سامان ہے ، اور ان سب احکامات پر عمل کرنا ہی انسان کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و بہبودی کا باعث ہے ۔ بلاشبہ یہ تمام احکامات ایسے ہیں جو ایک صحیح سالم انسان کے لئے حیاء اور پاکدامنی والی زندگی گزارنا آسان بنادیتے ہیں ۔
مگر حیف در حیف آج کے مسلمان مغربی تہذیب اور مستشرقین کے کلچر سے متاثر ہو کر دین مبین کے احکامات کو چھوڑ کر یہود بے بہبود اور نصاری و ملحدین کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں ۔
حجاب ملت اسلامیہ کا ایسا حساس مسئلہ ہے جس میں انسانیت کے واسطے کتنے ہی راز اور بے انتہاء خیر پوشیدہ ہے جس کا اندازہ ایک امتیاز کن عقل رکھنے والا انسان ہی لگا سکتا ہے ۔
پچھلے کچھ روز میں مستشرقین اور مغربی تہذیب نے حجاب کو جس طرح نقد و طنز کا نشانہ بنایا ہے ، اس پر مرتب ہونے والے اثرات سے آپ عبرت حاصل کرسکتے ہیں ۔
فروری ۲۰۰۹/ کو فرانس کی ایک بڑی یونیورسٹی کی پچیس سالہ طالبہ ”صابرین تروجات“ کو اس کے پیش کردہ تحقیقی مقالے کے انعام کے طور پر دیے جانے والے اسکالرشپ کو اس وجہ سے روک لیاگیا کہ وہ طالبہ برقع میں تھی ۔
جرمنی کے شہر ”ڈریسڈن“ کے ایک کورٹ (یعنی عدل گاہ اور انصاف کے مسکن) میں بیس سالہ خاتون ”مروہ شربینی“ پر چاقو سے بہیمانہ حملہ کیاگیا جو بالآخر جان لیواثابت ہوا اور اسی روز جب کہ ”مروہ شربینی“ کا خونِ ناحق ابھی تازہ ہی تھا کہ ایک فرنچ مسلم خاتون کو اس کے ٹیلرنگ ورکشاپ سے نکال دیاگیا، سبب اس کا بھی حجاب ہی تھا۔
اسی طرح ۲۰۱۰/ میں بھی فرانس کے صدر ”سرکوزی“ کے زہرناک بیانات کا تسلسل رہا؛ بلکہ حجاب پر پابندی کو سرکاری قانون بنانے کی بھی کوشش کی گئی ۔
اور ان پردہ اور حجاب سے متنفر لوگوں کا خود کا کیا حال ہے ؟ وہ کسی سے پنہا نہیں ۔ کسی سے بھی جنسی تعلقات قائم کرنا اور جانوروں سے بدتر زندگی گزارنا انکا شیوہ بن چکا ہے۔ اور انکی نظر میں یہی آزادی کی definition ہے ۔۔
یہ تو مستشرقین اور اسلاموفوبیا سے متاثر لوگوں کی بات تھی لیکن افسوس اس معنی کر ہے کہ مسلمان بھی ان خرافات اور حرام کاموں سے بہت تیزی کے ساتھ متاثر ہوتے چلے جارہے ہیں چنانچہ اسلامی ملک بلجیم کی صوبائی اسمبلی کی ممبر ”ماہ نور“ کے باحجاب پارلیمنٹ جانے کی وجہ سے دائیں بازو کے ایک ممبر نے کورٹ میں اس کے خلاف جمہوریت کی پامالی کا مقدمہ دائر کردیا ۔۔
آپ بتلائیں جب مسلمان ہی اپنے شرعی اور پاکیزہ احکام کی مخالفت کرنے لگیں گے تو غیر اور فوبک لوگوں کو شہ ملنا تو طے ہے ۔ ان ہی اثرات پر مرتب ہونے والے نتیجے کو آپ کرناٹک کی مسکان نامی طالبہ کے ساتھ ہونے والے واقعہ کی شکل میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔۔
پردہ اور حجاب میں جو خیر ہے اسکا انکار نہیں کیا جاسکتا ، انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ جو شئے قیمتی ہوتی ہے اس کو مخفی رکھا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح عورت بھی قیمتی شئی ہے جو چھپا کر رکھے جانے کے لائق ہے ۔ چنانچہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی علی تھانوی رح نے اپنے ملفوظات میں پردہ کی فطری ضرورت کو اسی انداز میں سمجھایا کہ ریل میں انسان اپنے پیسوں کو ظاہر نہیں کرتا ہے بلکہ اندر سے اندر والی جیب میں رکھتا ہے تاکہ شر یعنی چوری سے محفوظ رہے ۔ اسی طرح عورت کو بھی پردہ میں رکھنا چاہیے تاکہ اسکو شر اور آفات سے محفوظ رکھا جاسکے ، اور غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورت کو پردہ میں رہنا چاہئے ۔۔
۔ ( جلد 1 ، ص: ۱۱۵ ، ملفوظات حکیم الامت )
آج کے دور میں تو کوئی عقلی دلیل دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے ، واقعات آپ کے سامنے ہیں ، لوگ آپ کے سامنے ہیں ، لوگوں کی سوچ اور گندی نظروں کو آپ دیکھ رہے ہیں ان سب کے باوجود بھی اگر آپ بے پردگی اختیار کرتے ہیں تو یقینا آپ ہٹ دھرمی اور گندگی میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔
اسلئے رب ذوالجلال نے پہلے ہی ارشاد فرمادیا " وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا " یعنی زنا کے قریب بھی مت جاؤ ۔
اور دواعئی زنا میں ایک بڑا سبب بے پردگی بھی ہے جسکو نارملائز کرنا ایک وقت کے بعد آپ کو ارتداد کے دہانے پر لے جاکر کھڑا کردے گا ، آپ حالات کا تجزیہ کریں تو ضرور آپ کو ارتداد کی کتاب میں بے پردگی کا چیپٹر ملے گا !
صائمہ یوسف
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں