عالم خطاطی کے افق پر چمکتا دمکتا نام " مصعب عادل الہ آبادیمین پوری نیوز
میرے استاذ محترم نے فرمایا تھا کہ انسان جو بھی کام کرے اور دل لگاکر مستقل مزاجی کے ساتھ کرے ، تو وہ اس سلطنت کا بادشاہ بن جاتا ہے اور ساتھ ہی عربی مقولہ " الاستقامہ فوق الکرامہ " بھی ہمارے سامنے پیش کیا ۔۔
میں نے اپنی حقیقی زندگی میں واقعتا انکے اس جملہ کی عملی تشریح کو دیکھا ۔ وہ لوگ جو محض خاک سے اٹھے تھے لیکن انکی استقامت نے انکو اس میدان کا شہسوار بنادیا ۔۔ مثلا ایک میدان خطاطی اور کیلیگرافی کا ہے جس میں انسان کی استعداد کا دخل ہونے کے ساتھ خدا داد صلاحیت کا بے انتہاء دخل ہوتا ہے ، اور پھر اگر آپ کی جانب سے استقامت بھی پائی جائے پھر تو وہ اسکو مزید اوج ثریا کو لے جاتی ہے ۔ اس وقت ہندوستان کے خطاطوں میں ایک بڑا نام " مصعب عادل الہ آبادی " کا ہے جنھونے بہت جلد اپنے نام کو پورے ہندوستان میں پروان چڑھا کر عصری فرماں روائی کا تمغہ امتیاز حاصل کرلیا ہے ۔۔
میں جانتا ہوں کہ سوشل میڈیا اور زمین سطح پر بہتیرے خطاط اور کیلگرافر ہیں لیکن وہ اس قدر شہرت یافتہ اور کامیاب ثابت نہیں ہوسکے جتنا کہ موصوف اس وقت خطاطی کے دشت میں آبلہ پائی کا مزہ لوٹ رہے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ میں نے خود تجزیہ کیا کہ عمومی طور پر لوگوں کو خدا بیشمار صلاحیتوں سے نوازتا ہے لیکن وہ اس کی قدر نہیں کرتے ، گر کرتے بھی ہیں تو چندے روز بس ، اس کے بعد استقامت ماند پڑ جاتی ہے اور انکے حوصلے پست ہوجاتے ہیں ۔
لیکن موصوف میری نظر میں تنہاء ایسے شخص ہیں جنھونے دوران تعلیم ہی اپنے اس ہنر اور کاریگری کو لیکر مدارس کی انجمن اور اجلاس وغیرہ کے ذریعہ طلبہ اور اساتذہ کو فریفتہ کیا ، اس وقت انکا نام محض مدرسہ تک محدود تھا اور موصوف کی جد و جہد اور کاوش کے مطابق انکو اس قدر اہمیت حاصل نہیں ہورہی تھی ، لیکن موصوف نے ایک طویل وقت تک یوں ہی مفت میں اور خدا اور اسکے بندوں کی رضا کے لئے للہ فی اللہ کام کیا اور لوگوں کی نیک دعاؤں کے مستحق بنے بالآخر اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین سال میں موصوف کے نام کی شعائیں تاریک چادر کو چیرنے میں کامیاب ہوئیں ،۔
آج اترپردیش کی مساجد میں دروازہ وغیرہ کی بالائی سطح پر سنگ و خشت کے ذریعہ لکھی ہوئی تحریر و آیات موصوف کی مہارت اور اس دشت میں انکے یکہ تاز ہونے کی غماز ہیں !
خطاطی کی بات کریں تو آپ خود تقابل کرلیں کہ زمانہ طالب علمی میں ہی جس شخص کا حال یہ رہا ہو کہ اس نے محض قلم کے ذریعہ خطاطی نا کرکے سنگ و خشت میں اپنے نام کی چھاپ چھوڑ دی ہو تو اب اسکی خطاطی کا حال کیا ہوگا ؟ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی فضیلت حاصل کرنے کے بعد موصوف کی تاریخ اور دعوت میں اتنا اضافہ ہوا کہ ایک ایک ماہ کے سفر متواتر طے کرنے لگے اور موصوف کا نام ایک ایسی بارش کے مترادف ہوگیا جس سے اشجار اور پودوں کو سیراب کرنے کے لئے ہر مالی اپنے چمن میں اس نام کو دعوت دینے لگا ۔
ہر دن ایک ضلع اور ایک شہر کے لئے متعین کرتے اور مدارس و مکاتب میں طلبہ کے سامنے اپنی خطاطی کے جوہر دکھلا کر انکو سکھلانے کی کوشش کرتے ۔۔
یہ تو انکے ہنر اور کامیاب خطاط ہونے کا مختصر تعارف تھا لیکن اگر بات کی جائے کہ اسکی اصل بنیاد کیا ہے جس نے موصوف کو اتنی مقبولیت بخشی ہے ؟ تو میں اپنے ذاتی طور پر تجزیہ کے مطابق یہی کہونگا کہ موصوف کی خوش خوئی ، خوش اخلاقی ، حسن معاشرت ، ملنسار مزاج ، خندہ پیشانی اور شرافت ہی وہ سحر طراز تمغہ ہے جس نے میرے ساتھ بہتیرے لوگوں کو موصوف کی جانب مائل کیا اور انکے ساتھ تعلقات کے لئے دست درازی کی ۔۔
آج موصوف کی یہ خداد صلاحیت ، استقامت اور خوش اخلاقی انکو عالمی سطح پر شہرت یافتہ بنانے جارہی ہے ( اگلے مہینہ میں موصوف کو انڈونیشا بطور مہمان مدعو کیا گیا ہے ) .
اللہ سے دعاء ہے اسی طرح پورے عالم کے گوشہ گوشہ کو موصوف کی خطاطی کے گلہائے رنگا رنگ سے عطر بیز کرے اور اسفار کا سلسلہ طویل فرمائے ، آمین ۔
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نا پاہے رکاب میں
سمرہ عبدالرب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں