قربانی کا مفہوم اور مختصر تاریخ
قربانی کی ابتداء حلال جانور کو بہ بیت تقرب ذبح کرنے کی تارِیخ حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیل و قابیل کی قربانی سے ہی شروع ہو جاتی ہے یہ سب سے پہلی قربانی تھی۔
حق تعالیٰ جل شانہ کا سورہ مائدہ کی آیت نمبر 27 میں ارشاد ہے:
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط
ترجمہ : (اور آپ اہل کتاب کو آدمؑ کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے جب ان میں سے ہر ایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔)
علامہ ابن کثیرؒ نے اس آیت کے تحت حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کر کے قربانی پیش کی اس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا قابیل کی قربانی کو چھوڑ دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدمؑ کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہر ملت میں رہی، البتہ اس کی خاص شان اور پہچان حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ کے واقعہ سے ہوئی اور اسی کی یادگار کے طور پر امت محمدیہ ﷺ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔
*قربانی کی حقیقت قرآن کریم کی روشنی میں*:
قرآن کریم میں تقریباً نصف درجن آیات مبارکہ میں قربانی کی حقیقت و حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے، چند آیتیں مع اردو ترجمہ پیش خدمت ہے :
سورہ حج کی آیت نمبر 36 میں حق تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعْلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ○
ترجمہ : (اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اُونٹوں کو عبادت الٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں سو تم ان کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو ان کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھاؤ اور فقیر کو بھی کھلاؤ خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو جس طرح ہم نے ان جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا اسی طرح ان کو تمہارا تابع دار بنایا تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔)
آیت :
لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ○ترجمہ : (اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی اور اے پیغمبر ! مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے!۔)
سورة حج ہی میں دوسرے مقام پر آیت نمبر 32 میں اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اور قربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ خداوندی کا مظہر قرار دِیا ہے۔
آیت:
وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ○
ترجمہ: (اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رَکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دلوں کی پرہیزگاری سے ہوا کرتا ہے۔)
محمد اسجد نعمانی کشنگنجی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں