چوڑیاں بر صغیر میں سہاگن کی نشانیوں میں سے ایک
جونپور (حاجی ضیاء الدین)برصغیر میں چوڑیاں خواتین کے لئے زیب و زینت کا سامان ہونے کے ساتھ چوڑی پہننے والی خواتین کے لئے سہاگن ہونے کی نشانیوں کادرجہ رکھتی ہیں رنگ برنگی چوڑیاں صنف نازک کو اپنی جانب خوب لبھاتی ہیں چوڑیوںکا صنف نازک کے ساتھ جذباتی رشتہ ہے کچھ لوگ چوڑیاں نہ پہن لینے کی مہاورہ دیتے ہوئے خود کو طاقت ور کا احساس اپنے مخالف کو کراتے ہیں تو وہیں دہائیوں قبل فلموں میں چوڑیوںپر گانوں کو فلمائے جانے کا چلن عام تھا کہیں میلے میں چوڑی پہننے کے دوران ہیرو وہیروئن کا ملن ہو تا تھا۔
تو کہیں چوڑی کھنکا کر پیار ومحبت کا اظہار ہو تا تھا تو بعض شعراء نے بھی اپنی عزلوں میں چوڑیوں کا زکر کر کے خوب مقبولیت بخشی ہے چوڑیا گویا عاشق و معشوق کو نزدیک لانے کا ذریعہ بھی تھیں۔ چند دہائی قبل تک بازاروں میں کانچ اور پلاسٹک کی چوڑیوں کا خوب بول بالا تھا کانچ کی لال ، پیلی ، نیلی ، بیگنی، رنگ و برنگی لچھے والی چوڑیاں ہی بازاروں میں ملاکر تی تھیں جنھیں پہنانے والی خواتین گھروںتک پہنچتی تھیں ،
تیج تیوہار شادی بیاہ عیدین کے دنوں میں خواتین خاص طور پر نئی چوڑیاں خوب شوق سے پہنا کر تی تھیں کانچ کی چوڑیوںکے آپس میں ٹکرا نے پر جہاں نسوانیت کا احساس ہو تا تھا وہیں کسی کے حاضرہونے کا اشارہ بھی ملتا تھا تو وہیں معشوقہ کے چوڑیوں کی کھنکناہٹ عاشق کے دلوں کی دھڑکن بھی ہو ا کر تی تھی گویا چوڑیاں زیب وزینت کے ساتھ صنف نازک کا احساس بھی کر اتی تھیں شاید یہی وجہ تھی کہ چند دہائی قبل تک گھر کی دہلیز سے باہر نکلنے میں بھی صنف نازک کو ڈر لگتا تھا گویا صنف نازک کی زندگی چوڑی کے زکر کے بغیر ادھوری ہوتی تھی چند دہائی قبل تک تو فلمی گانوں میں چوڑیوں کی کھنک کا زکر خوب ہو تا تھا ۔
تو وہیں میلوں وغیرہ میں چوڑیاں خوب فروخت ہو تی تھیںجہاں خواتین اپنے من پسند کی چوڑیاں پہنا کر تی تو وہیں مسلم خواتین کو چوڑیہا ئن ان کے گھروں تک پہنچ کر چوڑیاںپہنایا کر تی تھی اور اس کا م کے لئے چوڑیہا ئن کی فہرست میں باقاعدہ گھر طے ہو تے تھے جس کو دیہی زبان میں گائوں داری کہا جا تا ہے ان کے حلقہ میں کوئی اور چوڑیہائن کسی کو چوڑی نہیں پہنا سکتی تھی مالی فراوانی ہو ئی تو سب کچھ ماضی کا حصہ بن گیا کانچ کی چوڑیوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے۔
فینسی چوڑیوں کی جگہ اب میٹل کی خوبصورت چوڑیاں ،بازاروںمیں مہیا ہیں گھروں میں چوڑی پہننے کا رواج تقریبا ً ختم ہو چکا ہےاور اب تو گھروں تک بساتن اور چوڑیہائن کا آناجانا تقریبا ً ختم ہو چکا ہےمالی فروانی کے ساتھ دیگر سہولیات میسر ہو ئی تو خود کی پسند کے نام پر صنف نازک بھی بازاروں کا رخ کر نے لگیں اور اب تو یوں کہا جائے کہ عیدین ، شادی بیاہ و دیگر ضرورتوں کی خریداری صنف نازک کے ذمہ محدود ہو گئی ہے تو بالکل ہی غلط نہ ہوگا۔
چند دہائی قبل تک گھریلو خواتین کو چوڑیہائن اور بساتن کا شدت کے ساتھ انتظار رہتا تھا جیسے ان کا دیدرا ہو تا تھا تو گھر کی بچیوں سے لے کر خواتین خوش ہو جایا کر تی تھیں بعض مرتبہ کسی خاص ضرور ت پڑجانے پر چوڑیہائن اور بساتن کو گھر کے کسی فرد سے پیغام پہنچا کر کے بلوا یا جا تا تھااور چوڑیہائن او ر بساتن کے دیر سے آنے پر سوال و جواب بھی ہو تا تھا ۔چوڑیہائن چوڑی پہنانے میں اس قدر ماہر ہو تی تھیں کہ ہاتھ کی کلائی دبا کر کانچ کی چوڑیوںکو آسانی سے پہنا دیتی تھی اور چوڑیاں بھی نہیں ٹوتتی تھیں لیکن نہ جانکار خواتین جب چوڑی پہنا تی تھیں تو چوڑیاں ٹوٹ جا نے سے کلائی زخمی بھی ہو جاتی تھی تو وہیں ربر کی چوڑیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہو تا تھا۔
ربر کی چوڑیوں کا آپس میں باندھ کر کسی بار یک کپڑے سے کھینچ کر چڑھایا جا تا تھا جس میں خواتین کو کافی دقت بھی ہو تی تھی لیکن ربر کی چوڑیاں مضوط ہو تی تھی اس لئے بڑی بوڑھی خواتین اس کو زیادہ استعمال کر تی تھیں اور نئی نویلی دلہن کا نچ کی چوڑیاں پہنتی تھیں ایک چھوٹی سے ٹوکری میں چوڑیوں کا پورا زخیرہ ہو تا تھا جسے چوڑیہائن اپنے سر پر رکھ کر گائوں گائوں گھر گھر جاکر خواتین بچیاں اپنے من پسند چوڑیوں کا انتخاب کیا کر تھیں۔
بتاتے ہیں کہ دہائیوں قبل مسلم معاشرے میں صنف نازک کا گھر کی دہلیز سے باہر نکلنا بھی عیب مانا جا تا تھا اسی لئے تو ناخون کا ٹنے سے لے کر چوڑی پہنانے تک کام کر نے والی خواتین کا تعین ہو تا تھا جو گائوں داری کے طور اناج لیا کر تی تھیں اتنا ہی نہیں بعض رئووسا نوابین یا امراء کے گھروں پرخواتین اور مردوں تک پیغام رسانی کے لئے باقاعدہ خواجہ سراء تعینات ہوا کرتے تھے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جدیدیت کی آندھی میں ساری روایتیں اور حدیں بہہ گئی ہیں۔
چند دہائی قبل تک گھروں میں خواتین کی زیب و زینت و دیگر ضروتوںکا سامان کسی دوری وغیرہ یا چھوٹی سی ٹوکری میں رکھ کر بساتن گائوں گائوں گھر گھر پہنچتی تھیں جن سے خواتین اپنی ضرورت کی چیزوں کو خریدا کر تی تھی اس طرح کی خواتین غریب گھرانے کوئی بیوہ تو کوئی مجبور ہو تی تھیں جو محنت کر کے رزق حلال کے ذریعہ خود کی اور بچوں کی کفالت کیا کر تی تھیں تو وہیں بعض گھروں کی خواتین بند مٹھی ان خواتین کی مدد بھی کیا کر تی تھیں موجودہ دور میں آن لائن اور بازاروں کی خریداری نے ان کے کاروبار کو چوپٹ کر دیا ہے۔
جس سے اب بساتن یا چوڑیہائن شاذ ونادر ہی گھروں تک پہنچ رہی ہیں ۔چند دہائی قبل تک کانچ کی چوڑیاں مختلف رنگوں وڈیزائن کی ہو تی تھی جس کی قیمت بازاروں میں۲ روپیہ سے ۵ رو پیہ درجن ہوتی تھی جن کا خریدنا بھی بعض خواتین کی وسعت سے باہر ہو تا تھا اس دور میں کانچ کی چوڑیاں کافی مضبوط بھی ہو تی تھی چھوٹی بچیوں سے لے کر بڑوں تک کی چوڑی آسانی سے ملتی تھی اس کے علاوہ پلاسٹک کی چوڑی ملتی تھی۔
اب بازاروں میں ۶۰ سے ۷۰ روپیہ فی درجن چوڑی ملتی ہے شادی بیاہ میں چوڑی پہنانے والی چوڑیہائن گھروں کو آتی تھی جہاں لڑکی کی شادی میں ساڑی وغیرہ لیتی تھیں اور لڑکے کی شادی میں( نیگ) تحفہ لیا کر تی تھیں موجودہ وقت میں بازاروں میں فیسنی چوڑی ، چوڑا آسانی سے دستیاب ہے چوڑی اور چوڑا سو روپیہ سے لے کر دس ہزار رو پیہ تک بازار وں میں مہیا ہیں ۔
چوڑیوں کے تاجر جاوید نے نمائندہ کو بتا یا کہ پہلے کا نچ کی چوڑیاں فیروز آباد سے آیا کر تی تھیں چوڑیوں کا کام بہت ہی نازک ہے شہری علاقو ں میں دکانوںمیں چوڑیاں بیچی جا تی تھی لیکن گائوں دیہات میں خواتین پھیری لگا کر چوڑی وغیرہ بیچا کر تی تھیں موجودہ وقت میں کانچ کی چوڑیاں ۷ رو پیہ سے ۶۰ روپیہ درجن تک دستیاب ہیںبازاروںمیں حید ر آباد ، ممبئی ، راجستھان جودھپور وغیرہ سے چوڑیاں بازاروںمیں مہیا ہیں نگ والی چوڑی ۱۰۰ رو پیہ درجن سے لے کر ۵ سو روپیہ درجن تک آسانی سے فروخت ہو رہی ہیں۔
اسی طرح پنجابی چوڑ ا کا سیٹ جو دلہن کے لئے خاص ہو تا ہے ۱۰۰ رو پیہ سے لے کر دس ہزار رو پیہ تک کا بازاروںمیں دستیاب ہے ۔اسی طرح حید را ٓباد کا نگ والا سیٹ ۱۰۰ سے دو ہزار رو پیہ تک کا مل جاتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں