مختار انصاری محض ایک پولیٹیشن یا سیاسی شخص کا نام نہیں تھا ، بلکہ خدمت خلق کے علم بردار ، مسلمانوں کی ایک مضبوط آواز ، آفات رسیدہ لوگوں کی امداد کرنے والے ، تہی دستوں کے مسیحا ، غریبوں کی مدارات کرنے والے ، علماء کا اعزاز و اکرام کرنے والے ، مدارس سے محبت رکھنے والے ، ظلم کی تاریکی کو اپنے نام کی روشنی سے چاک کرنے والے غیور فرزند کا نام تھا۔
مختار انصاری صاحب دیگر سیاستدانوں سے علیحدہ اپنی ایک شناخت ، رعب اور دبدبہ رکھنے والی شخصیت تھی ، جس نے ظلم کی تاریکی کو چاک کرنے کے لئے ، اپنی عوام کو صحیح قیادت دینے کے لئے ترغیب کے ساتھ ترہیب کا بھی دامن پکڑ رکھا تھا ، اور اپنی ایک ایسی شناخت بنا رکھی تھی کہ پورا پروانچل ان کے رعب اور دبدبہ کے سامنے سر خم تسلیم کرتا تھا ، جس کی وجہ سے ان پر مافیا کا بھی ٹیگ لگا اور بیس برس یا زائد زندانیوں میں بھی شمار ہوئے ، انھونے ان سب مصیبتوں کا سامنا تو کیا لیکن جب تک زندہ رہے شان و شوکت کے ساتھ جئیے ، کبھی غلامی کا طوق گلے میں نا ڈالا ۔
مختار انصاری صاحب محض سیاسی شخص نہیں تھے بلکہ ان میں کئی ایسی خوبیاں تھیں جو دیگر سیاستدانوں سے انکو ممتاز کرتی رہیں ، ان کو بیش قیمتی تمغہ امتیاز فراہم کرتی رہیں اور ان کو رعایا کی نظر میں با اثر شخصیت کی شناخت سے مقبول کرتی رہیں ۔
ایک امتیاز انکا رعب اور دبدبہ تھا جسکو انھونے ظلم کی تاریکی کو چاک کرنے کے لئے آلہ کار بنا رکھا تھا اور انکا یہ رعب محض مئو کے علاقہ تک محدود یا مشہور نہیں رہا بلکہ پورے اترپردیش میں مسلم تھا ، انکے رعب اور دبدبہ کا گواہ تو انکا دراز قد ، لحم شحیم جسم ، کشادہ ماتھا ، ستواں ناک ، اور مرعوب کن مونچھیں خود ہیں ۔
(ع) حرفے زحال خویش بہ سیما نوشہ ایم
ایک دوسرا امتیاز انکا ایک سیاسی اور ایک ایسے خانوادہ سے تعلق رکھنا جنکی خدمات ملکی و ملی طور پر نمایاں رہی ہیں ،مختار انصاری کے دادا ڈاکٹر مختار انصاری مجاھد آزادی اور شیخ الہند کے بہت ہی قریبی لوگوں میں سے ایک تھے ، جنھونے سیاسی خدمات کے ساتھ دینی خدمات اور دارالعلوم دیوبند کی خدمات میں بھی حصہ لیا اور خود مختار انصاری صاحب کی بھی جب ترہیب کے لئے دارالعلوم دیوبند کو ضرورت پڑی تو انھونے اپنی خدمت پیش کرنے کے لئے دریغ نہیں کی ۔ انکے بھائی رکن پارلیمنٹ اور بیٹا نیشنل شوٹر ہے ، دادا مجاہد آزادی ، نانا محمد عثمان تمغہ امتیاز حاصل کرنے والے برگیڈیر ، چاچا حامد انصاری سابق صدر جمہوریہ تھے ۔
مختار انصاری صاحب کے جانے کے بعد مزید واشگاف ہوا کہ وہ ایک غیور دینی حمیت رکھنے والے مسلمان تھے ، آخری کال ریکارڈنگ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ قید میں رہتے ہوئے نماز اور روزہ کی پابندی کی کچھ روز سے بہت زیادہ طبیعت ناساز ہونے کے سبب روزہ اور نماز ادا نا کرسکے تو اسکا انکو شکوہ تھا ۔۔
ہم آپ کی کمی ہمیشہ محسوس کرتے رہینگے اور کسی مختار کی خودمختاری کے منتظر رہیں گے۔
(ع) نفسے بیاد تو می سرکشم ، چہ عبارت و چہ معانیم "
اللہ غریق رحمت کرے اور جنت میں اعلی مقام عطاء فرمائے آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں