تازہ ترین

پیر، 18 مارچ، 2024

چند دہائی قبل تک گیس بتی کسی تقریب کی ضامن ہو ا کر تی تھی

چند دہائی قبل تک گیس بتی کسی تقریب کی ضامن ہو ا کر تی تھی 

از:حاجی ضیاء الدین جونپوری 
انسانی ضرورتوں کی تکمیل ہر دور میں مقدم رہی ہے ضرورتوں کے مطابق تحقیقی ہو تی رہی اور وجود میں آنے والے جدید آلات انسانی زندگی کو آسان بنا تے رہے چند دہائی قبل دیہی علاقوں تک بجلی کی سپلائی کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو نے کے باعث روشنی ایک اہم مسئلہ ہوتا تھا شام ہو تے ہی تاریکی میں ڈو ب جانے والے گائوں میں کسی تقریب و دیگر مواقع پر ہونے والے روشنی کے انتظام جہاں خوشیوں کا احساس دلاتے تھے وہیں گائوں کے لوگوں کو روشنی کا انتظام کر نا ہی ایک مشکل ترین مسئلہ ہواکر تا تھا۔


 چنددہائی قبل تک گائوں کے اکثرافراد لال ٹین ، ڈھبری ، لیمپ و غیرہ کے سہارے روشنی کا انتظام کیا کر تے تھے تو وہیں شادی بیاہ ، میلاد النبی ؐ ، مجلس ، ودیگر تقاریب کے موقع پر روشنی کا معقول انتظام درکار ہوتا تھا جس کی تکمیل گیس بتی کے سہارے ممکن ہو پاتی تھی انسانی ضروریات کی تکمیل میں مقام عروج کا مقام رکھنے والے گیس بتی جو کبھی راستہ بھٹکے ہو ئے باراتیوں کے لئے مدد گار ثابت ہو ا کر تی تھی جس کی روشنی کسی تقریب کی ضمانت دار ہو ا کر تی تھی ۲۰۰۵ تک پہنچ کر آہستہ آہستہ ختم ہوگئی ہے اور گیس بتی کے زوال کا عالم یہ ہے کہ جن لوگوں نے گیس بتی کا عروج دیکھا تھا اب ان کے دلوں میں گیس بتی کی ماضی کی یادیں ہی بچ گئی ہیں۔

 تو وہیں نسل نو تو گیس بتی سے پوری طرح نابلد ہے ۔ چند دہائی قبل تک گیس بتی بہن بیٹیوں کو جہیز میں دی جا تی تھی جس کی تعریف گلی محلہ کنبہ قبیلے میں ہو تی تھی تو کچھ پردیسی سنگاپور ، ملیشیا وغیرہ سے گیس بتی خرید کر لاتے تھے جس کی قیمت کے ساتھ گیس بتی اور اس کی روشنی کی بھی خوب بخان ہو تی تھی ۔شادی بیاہ و دیگر تقاریب کےموقع پر دیگرانتظامات کے علاوہ روشنی کے لئے گیس بتی کا بھی انتظام کر نا ہو تا تھا ۔

گائوں میں گیس بتی کے لین دین کو باعث ثواب تسلیم کیا جا تا تھا ۔ گیس بتی کے لئے مٹی کے تیل کا انتظام کر نا بھی بہت بڑا مسئلہ ہو تا تھا سرکاری کو ٹے پر  ملنے والےمٹی کے تیل کے لئے کوٹے دار کی منت و خوش آمد کر نی ہو تی تھی شادی اور روشنی کے انتظام میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ رہ جائے اس کےلئے کچھ لوگوں کو باقاعدہ تعینات کر دیا جا تا تھا

 ۔    چند دہائی قبل تک بازاروں میں عام طور پر گیس بتی آسانی سے مل جا یا کر تی تھی جس کی قیمت ۱۵۰ سے ۲۵۰  روپئے ہو تی تھی تو وہیں کچھ پردیسی سنگاپور ، ملیشیا ، وغیرہ سے گیس بتی لایا کر تے تھے ۔گیس بتی مٹی کے تیل کےسہارے جلتی تھی جس میں ایک ریشم کا منٹل لگا ہوتا تھا مٹی کا تیل کے سہارے آگ ریشم تک پہنچتی تھی اور پھروہی منٹل روشنی پھیلا تا تھا گیس بتی خراب ہو نے پر کاریگر کے یہاں پہنچ کر ٹھیک ہو تی تھی چند دہائی قبل تک گیس بتی کو درست کر نے کاکام عروج پر تھا لیکن ترقی ہو ئی تو گیس بتی کا وجود ہی ختم ہو گیا تو گیس بتی کے کا ریگر دیگر کاموں کے سہارے اپنی زندگی گزار رہے ہیں ، ۔


کھیتا سرائے قصبہ کے پرانی بازار رہا ئشی حاجی حسنین نے نمائندہ انقلاب کو بتا یا کہ میرے والد شبیر احمد مرحوم کا شمارا س وقت کے بہترین کا ریگروں میں ہو تا تھامیں بھی ان کے ساتھ گیس بتی رپیرنگ کا کام کر تھا چند دہائی قبل تک گیس بتی کا کام عروج پر تھا لیکن ۲۰۰۵ سے کام پوری طرح ختم ہو گیا ہے اور گیس بتی کانام و نشان ختم ہو گیا ہے ۔حسنین بتاتے ہیں کہ گیس بتی کی ٹنکی ڈیڑھ سے دو لیٹر کی ہو تی تھی جو پتیل اور لوہے کی ہو تی تھی ٹنکی کے اندر ایک پائپ ہو تی تھی جس کو لوور پارٹ کہا جاتا تھا ٹنکی میں پمپ لگا ہو تا تھا ۔

جس سے ہوا بھری جاتی تھی جس میں ایک والوو لگا ہوتا تھانیچے ٹنکی میں ایک ڈھکن لگا ہوتاتھا جس سے پریشر زیادہ ہونے پر ہوا نکال دی جا تی تھی اور ہوا کا پریشر چیک کر نے کے لئے میٹر لگا ہو تھا تو وہیں ٹنکی میں مٹی کا تیل بھرنے کے لئے ایک سوراخ بنا ہوتا تھا۔ ٹنکی کے درمیان میں ایک پارٹ ہو تا تھا جس کو لوور پارٹ کہتے تھے لوور پارٹ کے سہارے تیل اوپر جا تا تھا ۔


جس کو اپر پارٹ کہا جا تا تھا اپر پارٹ کے اوپر ایک نیپل لگا رہتا تھا اس میں ایک پن لگی رہتی تھی ضررت کے مطابق اس سے کام لیا جا تا تھا ۔ ٹنکی کے اوپر ایک پجڑا بنا ہو تھا اس پر ٹوپی رکھی جا تی تھی انر کیس میں ایک مکسن ٹیوپ لگا ہوتا اس میں پیتل کا چیمبر بنا ہو تا تھا جس میں مٹی کا کاربورنڈم بندھا ہو تھا اسی پر مینٹل جو کہ رشیم کا ہوتا تھا باندھ دیا جا تھا مٹی کا تیل ہوا کے سہارے آگ اگلتے ہوئے ریشم تک پہنچ کر روشنی دیا کر تھا۔


 گیس بتی میں ایک ہینگر بنا ہو تھاجوکہیں پر ٹانگنے کے کام آتا تھا اس کے اوپر ایک کیپ لگی ہو تی تھی جس میں کنارے پر معمولی سراخ بنے ہو تے تھے جو اندر تک ہوا پہنچاتے تھے اوراوپر سے کپ بند کر دیا جاتاتھا ہو اکو روکنے کے لئے ایک شیشہ لگا ہو تاتھا اس زمانہ میں گیس بتی کرایہ پر دستیاب ہو تی تھی تو گائوں میں کچھ لوگ مفت میں گیس بتی مہیا کر ایا کر تےتھے ترقی ہو ئی تو بجلی کاری نے گائوں کے اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کر دیا ہے اور ماضی کے آلات نے اپنا وجود کھو دیا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad