یوں تو 2014 میں جب بی جے پی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور مرکز میں اس کی حکومت قائم ہوئی تبھی سے مسلمانوں کے ماتھے پر چنتا کی لکیریں ابھرنا شروع ہوگئیں مگر بی جے پی نے اور بالخصوص وزیر اعظم نریندرمودی نے ایک نعرہ دیا تھا کہ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس ،، اس نعرے سے جہاں ہر ہندوستانی کو ایک امید نظر آئی وہیں مسلمانوں کو بھی امید کی کرن نظر آئی کہ ہوسکتا ہے کہ بڑی ذمہ داری آگئی ہے تو ضرور سنجیدگی کا مزاج اور ماحول قائم ہوگا آئین کی بالادستی قائم رہے گی اور جمہوریت کے شامیانے میں سب کو جگہ ملے گی جہاں سارے لوگ اطمینان وسکون کے ساتھ اپنی زندگی کا گذر بسر کریں گے وہیں مسلمان بھی چین و سکون کی سانس لے گا مگر افسوس کہ مسلمانوں کی اس امید پر ہمیشہ پانی پھیرنے کو کوشش کی گئ اور ساتھ ہی انہیں ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ،، مدارس و مساجد ، خانقاہوں اور مزارات و مقبروں کو نشانہ بنانے کا بھی سلسلہ چل پڑا اور اب تو اس میں مزید اضافہ بھی ہوگیا اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ سلسلہ تھمے گا کیسے،، اخباروں میں تو سرخیاں آئے دن دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ایک ہو جاؤ تو بن سکتے ہو خورشید مبین۔
مگر یہ بھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر ایک ہوں ، آخر کیسے متحد ہوں ،، متحد ہونے کی آوازیں تو گاہے بگاہے اٹھتی رہتی ہے مگر کوئی فارمولہ پیش نہیں کیا جاتا اور یہ بھی بہت ہی خاص بات ہے کہ متحد ہونے کی بات سماجی اسٹیج سے ہی اٹھتی ہے اور سماجی شخصیات کی جانب سے ہی اٹھتی ہے پھر کسی ایک جلسے میں کوئی مقرر لال مرچ کا دھونوار دیدیتا ہے تو سب کچھ بیکار ہوجاتاہے اور اب تو علماء کرام کی گرفتاریوں کا بھی سلسلہ شروع ہوچکا ہے کسی پر دہشت گردی کا الزام لگاکر تو کسی پر اشتعال انگیزی کا الزام لگاکر تو کسی کو گھناؤنی سازش میں پھنسا کر گرفتار کرلیا جاتا ہے مگر پھر بھی ایسے سنگین مسائل کو بھی مسلکی آئینے سے دیکھا جاتاہے اور اسی طرح باری باری سب کا نمبر آگیا مگر پھر بھی مسلمانوں کے متحد ہونے کی آواز مدارس سے نہیں اٹھتی خانقاہوں سے نہیں اٹھتی اور اجتماعی طور پر علماء کرام کے درمیان سے بھی نہیں اٹھتی یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے ،، ایک بات ذہن نشین ہونا چاہئے کہ صرف بھیڑ سے کچھ نہیں ہوتا ہاں بھیڑ کسی شعبے کسی نظریے اور کسی مقصد میں تبدیل ہوجائے تب فائدہ حاصل ہوتا ہے مولانا قمر عثمان غنی ، مولانا کلیم الدین صدیقی مولانا جرجیس انصاری وغیرہ ان سب کو گرفتار کیا جاچکاہے ان میں سے کسی کی رہائی ہوچکی ہے تو کوئی ابھی بھی قید و بند کی صعوبتوں کو جھیل رہا ہے حال ہی میں مفتی سلمان ازہری کو گرفتار کرلیا گیا ہے اب یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا جرجیس انصاری اور مفتی سلمان ازہری ان دونوں کے پروگرام میں لوگ امنڈتے ہوئے سیلاب کی طرح شریک ہوتے ہیں لیکن جب وہی شخصیات گرفتاری کا سامنا کرتی ہیں تو وہ معتقدین کہاں چلے جاتے ہیں یہ تو بالکل وہی بات ہوئی کہ ہنستا ہوا بچہ جو چاہے کھلالے ارے روتے ہوئے بچے کو کھلاکر کوئی دیکھائے تب تو بات بنے ،، پروگرام کرانا ہے تو بینر ، پوسٹر، اشتہار، اعلان سب کچھ اور استقبال ایسا کہ راستہ جام ہوجائے پروگرام میں جم غفیر امنڈ آئے اور جب گرفتار ہو جائیں تو سناٹا چھا جائے حالانکہ یہاں عقیدت و محبت کے اظہار کی ضرورت ہے مگر ساری عقیدت و محبت بھی مسلمان مسلک کی بنیاد پر کسی کو جلانے کے لئے ہی دیکھاتا ہے مسلمانوں کا حال ان مرغوں کی طرح ہے کہ جس کو ذبح کرنے کے لئے پنجرے سے نکالا جاتاہے صرف وہی بولتا ہے باقی سارے مرغے خاموش رہتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا کہ باری باری سب کی گردن چھری کے نیچے ہی آتی ہے-
یہ بھی بہت بڑا المیہ ہے کہ لفظ مسلمان میں جتنے حروف ہیں ان کی تعداد چھ ہے مگر ایک ایک حروف پر مسلمانوں کے درمیان اتنے شدید اختلافات ہیں کہ سرد ہونے کی ساری گنجائشیں زنجیروں میں قید نظر آتی ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے کہ وہ زنجیریں اب ہاتھوں میں نظر آنے لگیں کبھی دانشوروں کے ہاتھوں میں تو کبھی مسلم رہنمائے سیاست کے ہاتھوں میں تو کبھی طالب علموں کے ہاتھوں میں تو کبھی علماء کرام کے ہاتھوں میں اب دیکھنا ہے کہ مدارس و مکاتب اور خانقاہوں سے گرفتار شدہ علماء کرام کی حمایت میں کتنی آوازیں بلند ہوتی ہیں ،، ہونا تو یہ چاہئے کہ کسی ایک عالم کو ناحق گرفتار کیا جاتا ہے تو علماء کرام کو فوراً حرکت میں آجانا چاہئے کہ ہمیں بھی گرفتار کیا جائے نہیں تو پھر سب کے بیوی بچے ہیں سب کو اپنی زندگی پیاری ہے وہ لوگ بھی اپنی زبانیں بند کرلیں گے پھر نتیجہ یہ ہوگا کہ دینی و ملی تشخص بچانا بھی مشکل ہو جائے گا پیروں کا مریدوں کے جھرمٹ میں رہنا بھی بند ہو جائے گا پھر جلسے اور جلوس پر بھی گھنے کہرے چھا جائیں گے حال ہی میں مہاراشٹر کے ضلع ناسک میں ایک مکتب فکر کے چند شرپسندوں کی جو حرکت دیکھنے کو ملی وہ ماب لنچنگ کا ہی دوسرا رخ ہے آج کے پر آشوب و پرفتن دور میں بھی جو ایسی حرکت کرے اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے تاکہ مسلمانوں کے اندر مزید انتشار نہ بڑھے ،، اور علماء کرام کی گرفتاریوں پر ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ضرور کریں مگر جذبات کو قابو میں رکھیں اور محتاط انداز اختیار کریں تاکہ قوم مسلم مزید دشواری کا شکار نہ ہوسکے،، اب بھی وقت ہے علماء کرام دین کے ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی اظہار خیال کریں سیاسی بیداری مہم چلائیں کیونکہ سیاست سے غافل اور سیاست سے دوری و مسلم سیاسی قیادت سے محرومی کے نتائج برآمد ہونے لگے اس لئے خود بھی سیاست میں حصہ لیں اور دوسروں کو بھی سیاست میں حصہ لینے کی دعوت دیں اور کھل کر کہیں کہ جس کا جو مسلک ہے اس پر وہ قائم رہے کوئی ایک دوسرے کے خلاف زبان درازی نہ کرے، لعن و طعن نہ کرے،،مسلمان ہونے کے لئے کلمۂ طیبہ کا اقرار ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ، حج وعمرہ میں کعبے کا طواف اسلام کے پانچ ارکان کو ماننے کی بنیاد پر متحد ہوں یہی وقت کی ضرورت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں