تازہ ترین

جمعہ، 16 فروری، 2024

اس وقت حالات انفرادیت کا نہین اجتماعیت کا تقاضا کررہے ہیں

اس وقت حالات انفرادیت کا نہیں اجتماعیت کا تقاضا کررہے ہیں
ہمارے سامنے آج کے جو ناگفتہ بہ حالات ہیں  ان کے  تجزیہ کے ہمارے سامنے مختلف طریقے  ہیں ایک تو طریقہ یہ ہے کہ ہم سیاسی طور پر کہاں پچھڑ گئے ، سسٹم میں کہاں پیچھے رہ گئے ہیں ؟ دوسرا طریقہ یہ کہ ہماری ایمانی طور پر پس روی ، دینی امور میں پس ماندگی ، جمہوریت میں  رہتے ہوئے اتنی بڑی تعداد کا آف کلر یا معطل ہو جانا کیسے ہوا ؟ یہ بڑے بڑے سوالات ہیں جنکا جواب باقی ہے لیکن یہ طے ہے اس وقت جو حالات ہیں وہ انفرادیت کا نہیں بلکہ اجتماعیت کا تقاضا کرتے ہیں ۔ ہم پر آفت اجتماعی ہے تو ان حالات کو حل کرنے کرنے اور face کرنے کے لئے بھی اجتماعیت ، من حیث القوم ، as a nation  ہونے کی ضرورت ہے ۔

  ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے منشور کو دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دو طریقہ بتلائے ہیں (۱) انفرادی (۲) اجتماعی ؛ انفرادی طریقہ پر تو قدرے ہم عمل کرتے رہتے ہیں  معیشت ، کاروبار ، فرائض کی ادائیگی ، 

لیکن اجتماعی طریقہ پر ہم بالکل پس ماندہ ہوکر رہ گئے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئ ہمارا بھائ بھی پٹتا ہے یا وہ مصیبت میں ہے تو ہم یہ کہتے ہوئے فروگزاشت کردیتے ہیں کہ یہ سب ہم پر نہیں ہورہا ہے تو ہم  کو قدح و جرح ، اخوت ، انسانیت اور ہمدردی کی کیا ضرورت ؟ اور یہی اساس ہے پس روی اور ان حالات کی جس نے ہمارے قالب کو لہو ولعب بناکر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے کسی کو بھی انفرادی طور پر اٹھالیا جاتا ہے ٹارچر کرکے اور سزائیں دیکر معطل اور بیکار کردیا جاتا ہے یا پھر قعر گم نامی کا حصہ بنادیا جاتا ہے ۔

 ان اجتماعی طور پر پیش آمدہ آفات  سے نمٹنے کے لئے بھی اجتماعیت کے بغیر کام نہیں ہوسکتا ، جس کے لئے ہم کو  ذات پات ، مسلک و مشرب سے نگاہیں ہٹاکر کسی مورچہ یا کسی ایسی تحریک کو تشکیل دینی پڑتی ہے جس میں اجتماعی طور پر ہم حالات کو حل کرسکیں ۔ اور اس وقت ہندوستان میں جمعیتہ علماء ہند سے بڑا کوئ پلیٹ فارم ، کوئ تنظیم ، کوئ جماعت نہیں جو اس طرح کے کام کو انجام دے سکے ورنہ کوئی نیا محاذ بناکر کوئ نئی جماعت تیارکر کے اس کی حکایت لکھ دینا اس وقت سمجھ سے بالکل ہی بالاتر ہے ۔

 ہاں اگر جماعت میں کوئ سقم ، بیک اپ میں کوئ کمزوری ہے تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کھڑے ہوکر اس کو ٹھیک کریں اور اسکی تقویت کے لئے کوشش کریں ، لیکن ہماری قوم قیادت کو تسلیم نہیں  کرتی ہے جب کبھی کوئ عالم منبر سے سیاسی احوال پر تبصرہ کردے تو کہا جاتا ہے کہ مولانا لوگوں کو ان چیزوں سے کیا سروکار ؟ اور جب بات دار و رسن اور خون بہانے کی آتی ہے تو پھر ہماری تلاش شروع ہوجاتی ہے ؟  


جان لینا چاہئے کہ علماء کی قربانیوں سے تاریخ کے دفتر کے دفتر سیاہ ہوئے پڑے ہیں اور ہماری گردنیں بھی ان قربانیوں کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں لیکن آپ کو ساتھ کھڑا ہونا ہوگا کیونکہ نا یہ صرف ہم کرسکتے اور نا صرف آپ کرسکتے ہیں ، قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے ۔۔


من جملہ یہ سمجھ لیجئے کہ اس وقت آپ کی کشتی بھنور میں ہے اور اس بھنور سے نکالنے کے لئے خدا نے ناخدا بھی پیدا کئے ہیں آپ کو بس خود کو پیش کرنے کی ضرورت اور  فنائیت درکار ہے ، آپ اسوہ رسول کو دیکھئے  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے میدان میں ۳۱۳ کے ساتھ غیر مسلح ہونے کی حالت میں ایک کثیر تعداد طاقت ور مسلح جتھہ کے سامنے پیش ہوتے ہوئے گوہار لگاتے ہیں اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِیْ الْاَرْضِ۔ اے  اللہ اگر یہ مسلمانوں کی جماعت ہلاک کر دی گئی تو اس زمین میں تیری کوئ عبادت کرنے والا نہیں بچے گا ، اور پھر اسکے بعد  تختہ بھی ایسا پلٹتا ہے کہ وہ واقعہ ہی ضرب المثل بن جاتا ہے ، اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس جب کفار کا ایک بڑا ایلچی آکر کہتا ہے کہ کیا ۳۱۳ کے ساتھ معاذ اللہ محمد کے ساتھ دے رہے ہو اپنی حالت دیکھی ہے ایک ڈنڈا تک نہیں ، چپل تک نہیں تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا فنائیت سے بھر پور جواب کہ میں اس لئے نہیں آیا کہ مقابلہ کروں میں اس لئے آیا ہوں کہ یہ ایک جان بچی ہے جسکا نذرانہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش کروں اسکے حواس باختہ کردیتا ہے ۔ یہ حالات بھی کچھ اسی طرح ہیں کہ خود کو خالص کردیا جائے ، فنا کردیا جائے ، جب یہ ہوگا تب جاکر ہمارے سامنے افق مصائب پر کامیابی کا سورج طلوع ہوگا ۔ اور یہ اچھی بات ہے کہ ہماری جماعتیں اس کے لئے کوشش کررہی ہیں اجتماعیت کے لئے پیش قدمی بھی کررہی ہیں اسی سلسلہ میں جمعیتہ علماء کا اجلاس ۲۶ اور ۲۷ فروری کو مرادآباد اترپردیش میں منعقد بھی ہورہا ہے ان شاءاللہ امید ہے کہ اس طرح کے اجلاس مسلمانوں میں اجتماعیت کا موجب ہوں گے ۔

"مولانا عبدالرب قاسمی جنرل سکریٹری جمعیتہ علماء فرخ آباد و نائب صدر وسطی اترپردیش کا مجلس عاملہ واراکین منتظمہ سے خطاب "

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad