عکرمہ سلیمان فرخ آبادی
مانا کہ ہم اس ملک میں امن کے سب سے بڑے حامی اور علمبردار ہیں کسی طرح کی بدمزگی، بدامنی نہیں ہونے دینا چاہتے۔لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ہم نے چوڑیاں پہنی ہیں، یا ہمارے بازو میں طاقت نہیں، یا ہم قوت مدافعت کھو چکے، ہمارے ایمان میں حرارت اور گرم جوشی نہیں، ہم کو سب آتا ہے لیکن جب آتا ہے تو آتا چلا جاتا ہے اسی لیے تاخیر سے آتا ہے،
اسی لیے کسی کے صبر کو آزمانا نہیں چاہیے۔
اور پھر ہم اس عظیم پالنہار کے نام لیوا ہیں جس کی قدرت سے دنیا کی کتنی ہی قومیں رات سوئیں تو صبح زمین پہ ان کے نشانات بھی نہیں دستیاب ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم یہاں بستے ہی کہاں ہیں، "کُن فی الدنیا کأنک غریب" جیسے جملے تو ہمارا آکسیجن ہیں نا ہم کو مستقبل کی فکر ہے، نا بنگلے کوٹھی اور محلات کی چاہت ہے اگر ہوتی بھی ہے تو ایمان اور اسلام پہ جب جان لٹانے کی بات آئے تو سب فنا ہوجاتی ہے پھر ہمارا ایک ہی ہدف ہوتا ہے اور وہ ایک مسلمان بہتر جانتا ہے۔
دنیا کہتی ہے کہ ہم مذہب کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرینگے لیکن وہ جھوٹ کہتے ہیں کارل مارکس اور اس کے جیسے کتنوں نے ہنگامی حالات میں مذہب کی قربانی دی، لیکن مسلمان ایک واحد قوم ہے جس نے حالات سے ڈر کر کبھی مذہب سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ایسے حالات میں اپنے خون جگر سے اسلام کے شجر طوبی کی آبیاری کی ہے، اور اس کو سعادت سمجھا ہے۔
میں بڑی جرءت کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ حالات ہمارے اعصاب پر ذرا فرق نہیں پیدا کرتے ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس سے ہمارا ایمانی خون بہت گرم ہوتا ہے، تو جب تک برداشت اور گنجائش ہے چلتا رہے گا، پانی سر سے اوپر ہوتا ہے تو دنیا ان بے سر و سامان لوگوں کے کارناموں کا مشاہدہ کرتی ہے جو خدا کی نصرت کے سایہ میں چشم زدن میں بساط الٹنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
ایمان سلامت ہے، ایمانی غیرت اور اس کی آتشِ فروزاں دل میں ہے، بس کافی ہے، ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں