الہ آباد ہائی کورٹ کا یوپی حکومت سے سوال ،حق تعلیم قانون سے استثنیٰ پر بھی وضاحت طلب
الہ آباد(22 جنوری2024)ریاست اتر پردیش کے مدارس نہ صرف حکومت کے نشانہ پر ہیں بلکہ عدالت میں بھی مدارس اور ان کے انتظامات کے حوالے سے کئی اعتراضات دائر کیے گئے ہیں۔ ان اعتراضات پر سماعت کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بینچ نےحکومت سے پوچھا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے چیئر مین اور دیگر ممبران مسلمان ہی کیوں ہوتے ہیں اور مدارس کو حق تعلیم قانون سے کیوں استثنی رکھا گیا ہے۔
یہ سوال و و یک سبھاش چودھری اور جسٹس سجاش در یار تھی کی مشترکہ بنچ نے پوچھا ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 23 جنوری کو مقرر کی گئی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ میں ایڈوکیٹ انشو مان سنگھ راٹھوڑ نے حق تعلیم قانون 2009 کے سیکشن 2 اور مدرسہ ایجوکیشن بورڈایکٹ 2004 کو منسوخ کرنے کی درخواست دائر کی اور مرکزی اور صوبائی حکومت کے ساتھ مدرسہ بورڈ کو فریق بنایا۔ اس کے بعد سے لکھنو بنچ میں اس کیس کی سماعت چل رہی ہے اور دونوں فریق کئی تاریخوں پر پیش ہو چکے ہیں ۔ کل اس کیس کی ساعت ہوئی جس میں جسٹس دو یک چودھری اور جسٹس سجاش ودیارتھی کی ڈویژن بنچ نے ریاست میں نافذ یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ ایکٹ 2004 پر سوالات اٹھائے۔
بنچ نے ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ یوپی مدرسہ بورڈ سے چھا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے چیئر مین کے لیے ایک مسلم ماہر تعلیم اور دیگر اراکین کا مسلم کمیونٹی سے ہونا کیوں لازمی قرار دیا گیا ہے؟ عدالت نے مرکزی حکومت سے بھی وضاحت طلب کی ہے کہ تعلیم کے حق قانون 2009 کے تحت مدارس ور ویدک اسکولوں کو مٹی کیوں رکھا گیا ہے۔ یو پی مدرسہ بورڈ کی جانب سے ایڈوکیٹ افضال احمد صدیقی اور بیچرس ایسوسی ایشن مدرسہ عربیہ اتر پردیش کی جانب سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ مہیندر بہادر سنگھ نے بتایا کہ عدالت یہ جانتا چاہتی ہے کہ سیکولر ملک میں کسی بھی سرکاری ادارے میں نامزدگی کے لئے مسلم ہونے کی شرط کیسے لگائی جا سکتی ہے اور اگر وہ کوئی اقلیتی ادارہ ہے تو اس کے افسران سکھ، عیسائی ، جین اور بودھ فرقہ کے لوگ کیوں نہیں ہو سکتے؟ایڈوکیٹ مہیندر بہادر سنگھ نے یہ بھی کہا کہ عدالت یہ بھی جانا چاہتی ہے کہ مدارس اگر اقلیتی بہبود کے تحت چلتے ہیں تو غیر اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے اور مدرسہ تعلیم سے نا واقف افسران اس محکمہ میں کیسے کام کرتے ہیں؟ غیر ماہر بالکار کیسے مدارس کو بہتر تعلیم فراہم کر رہے ہیں اور حکومت جدید تعلیم کے بغیر مدارس کے طلباء کا مستقبل کیسے سنوار سکتی ہے؟ انہوں نے بھی بتایا کہ جب یوپی کے مدارس پہلے یوپی محکمہ تعلیم کےتحت چلتے تھے تو انہیں الگ بورڈ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ جبکہ محکہ تعلیم میں بی ایڈ ، ایل ٹی گریڈ کے افسران ہیں جو بہتر تعلیمی انتظام کے ماہر ہوتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈایکٹ 2004 کے مطابق چیئر مین کو روایتی مدرسہ تعلیم کے میدان میں ایک نامور ماہر تعلیم ہونا چاہیے ، جب کہ دیگر اراکین ایک سنی اور ایک شیعہ رکن یو پی اسمبلی کے دونوں ایوانوں کے منتخب شخص ہوں گے۔ اسی طرح، ایک ایک ممبر سنی و شیعہ مدرسہ کے پرنسپل ہوں گے جنہیں حکومت نامزد کرے گی۔
ایڈوکیٹ مہیندر بہادر سنگھ کا کہنا ہے کہ عدالت نے ارکان اسمبلی کی جانب سے مدرسہ بورڈ کے ارکان کے انتخاب پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور وہ جاننا چاہتی ہے کہ مدرسہ بورڈ کے اراکین کے انتخاب کے لیے اسمبلی اراکین کی تعلیمی صلاحیت کس طرح موزوں ہو سکتی ہے؟ قابل ذکر ہے کہ نیچرس ایسوسی ایشن مدرسہ اتر پردیش بھی مذکورہ معاملے میں فریق ہیں۔ ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری دیوان صاحب زمان خان کا کہنا ہے کہ انشومان سنگھ راٹھور ہم مقابلہ حکومت ہند اور دیگر مقدمے میں گزشتہ 18 جنوری کو ہوئی سماعت پر کہا گیا کہ انشومان سنگھ کی رٹ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ نہ تو متاثرہ فریق ہیں اور نہ ہی ان کا مدارس سے کوئی تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدرسہ بورڈ ایکٹ 2004 میں نافذ ہوا اور اب 20 سال بعد اس پر سوال اٹھانے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ ایسوسی ایشن نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ مدارس اور سنسکرت پاٹھ شالا میں ایجوکیشن کوڈ کے ایک ہی باب قدیم زبانوں کے ادارےاور (انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل لینگویج انسٹی ٹیوشن ) کے تحت قائم ہوئی انہیں گرانٹ دی جاتی ہے۔ لیکن سوال صرف مدارس پر ہی اٹھایا جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں