تازہ ترین

بدھ، 31 جنوری، 2024

ماسٹر محمد عارف برقی جونپوری کے انتقال پر تعزیتی نشست کا انعقاد

ماسٹر محمد عارف برقی کے انتقال پر تعزیتی نشست کا انعقاد
جونپور:حاجی ضیاء الدین (یو این اے نیوز 31جنوری) کھیتا سرائے تھانہ حلقہ کے موضع معروف پو ر واقع درسگاہ اسلامی میں ماسٹر محمد عارف برقی مرحوم کے سانحہ انتقال پر ان تعزیتی نشتت کا انعقاد کیا گیا،جس میں گاؤں کے معززین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس سانحہ کو معروف پور ہی نہیں ،دنیائِ علم و ادب کے لئے ایک بڑا نقصان قرار دیا۔ 

 ان کے بچپن کے ساتھی جلال الدین سرور نے بتایا کہ’’ میرا ان سے بچپن کا یارانہ تھا،ہم ساتھ پیدل کھیتاسرائے پڑھنے جایا کرتے تھے،اپنے اس تعلقات کو انہوں نے آخری دم تک بخوبی نبھایا،اب ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘۔ماسٹر بدیع الزماں نے کہا کہ’’ مرحوم سے میرے دیرینہ تعلقات تھے،تقریبا ۱۶ سالوں تک ہم دونوں نے ایک ساتھ فرقانیہ اسکول  منیچھا شاہی تالاب پر اپنی خدمات انجام دیا آپ بہت ہی سادہ مزاج اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے،آپ کے تعلقات بہت وسیع تھے،اسکول کی مصروفیت کے باوجود لوگوں کے کام آناان کا خاصہ تھا‘‘۔مرحوم کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر محمود عاصم نے بتایا کہ’’


 والدمحترم نے ہمیشہ ہم سب کی تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا،ہمارے زمانہ طالب علمی میں جب والد کی تنخواہیں کئی کئی ماہ نہیں آتی تھیں اس وقت کہتے تھے کہ بیٹا ایک وقت کا کھانا نہیں کھائیں گے لیکن پڑھائی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

ان کو بچوں ہی نہیں تعلیم کی فطرت سے اچھی واقفیت تھی،درسگاہ اسلامی معروف پور سے پرائمری کی فراغت کے بعد میرے خواہش پر میرا نام مدرسہ میں لکھوایا،حالانکہ معاشرہ میں لاعلمی کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو ان کی مرضی یا دلچسپی کے بجائے اپنی مرضی سے داخلہ کرواتے ہیں اور نتیجہ میں بیشتر بچے تعلیمی اعتبار سے پچھڑ جاتے ہیں۔


والد محترم کو شعرو شاعری سے بھی لگاؤ تھا ،رات میں جب کبھی آنکھ کھل جاتی تو بجائے اس کے کہ صرف کروٹیں بدلتے،بیٹھ کر کچھ لکھنا شروع کردیتے،آپ کے کلام کا بیشتر حصہ محفوظ ہے جسے جلد از جلد شائع کرانے کی کوشش کی جائے گی‘‘۔ ماسٹر محمد اختر نے کہا کہ’’ مرحوم میرے بہترن پڑوسیوں میں سے تھے،ان کی تعلیمی لیاقت کو دیکھتے ہوئے میں نے ضروری سمجھا کی ان کی صلاحیتوں سے بچوں کو فائدہ پہنچایا جائے لہذا ان کو منیچھا (بادشاہی) اسکول پر درس و تدریس کے لئے متعین کیا،آج مرحوم ہمارے درمیان نہیں ہیں اس کا مجھے بے حد قلق ہے ،ان کا انتقال معروف پورگاؤں کا ہی نہیں ہمارے مدرسہ کے لئے بھی ایک عظیم خسارہ ہے،ان کے اندر ایک خوبی جسے میں نے بھی اپنی زندگی کا حصہ بنایا یہ تھی کہ وہ صلح جوئی کے قائل تھے‘‘۔


آخر میں مولانا عبداللہ فاروق نے مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ تھے تو وہ میرے استاد،لیکن ہمیشہ دوستانہ حیثیت سے ساتھ رہے،یہ دوستی صرف اور صرف تعلیم کے مشن کے لئے تھی،میرا ہر تعلیمی سفر مرحوم کے ساتھ ہوتا تھا،مرحوم کے اندر ایک دوسری خوبی جو سب سے زیادہ نمایاں تھی وہ تعلقات تھا،جہاں بھی جاتے متعلقین کا ایک حلقہ بنا لیتے تھے۔درسگاہ اسلامی معروف پور کی ترقی کے لئے آپ ہر وقت سوچتے تھے،غریب بچوں کی فیس بھی خود جمع کرادیتے تھے،اپنے لواحقین سے سالانہ تعاون بھی دلانے کہ کوشش کرتے تھے۔

وقتا فوقتا درسگاہ میں ادبی نششت بھی کرایا کر تے تھےا س کے ساتھ عبادت گزار بھی تھے‘‘،مرحوم کے بڑے بیٹے ڈاکٹر مسعود سالم نے بتایا کہ میڈیکل کی تیاری کے دوران ایک مرتبہ میرے والد کے دوست نے طنزیہ طور پر کہا تھا کہ تم اپنے والد کی طرح ماسٹر ہی بنو گے ،تو میرا جوب تھا کہ ضروری نہیں کہ پائلٹ کا لڑکا پائلٹ ہی بنے یہ سن کر میرے والد نے میری  حوصلہ افزائی کی جس کا نتیجہ ہے کہ میں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ماسٹر آف پبلک ہیلتھ کی ڈگری حاصل کی ،اور آج حکومت ہند کی نیشنل ہیلتھ مشن میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں‘‘۔


محمد سالم سجاد فلاحی نے کہا کہ’’مرحوم کہیں بھی رہتے گائوں کے لوگوں کی خبر گیری ضرور کیا کرتے تھے،ان کا یہ جذبہ اس بات کی علامت ہے کہ انہیں اپنے گاؤں کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں سے بے حد محبت تھی۔‘آخر میں مرحوم کی مغفرت کے دعائیں کی گئیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad