ان میں سے کسی بھی معاملے میں قصور وار نہ ٹھہرائے جانے کے باوجود امام چار سال جیل میں گزار چکےہیں۔ ان کےخلاف درج ہونے والے کل آٹھ معاملوں میں سے پانچ میں انہیں ضمانت مل چکی ہے، جبکہ ایک میں انہیں کبھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ ایسے میں ان کے خلاف صرف یو اے پی اے کے معاملے ہی رہ گئے ہیں۔ان چار سالوں میں دہلی کی مختلف عدالتوں میں ان کی ضمانت کی درخواستیں زیر التوا رہیں۔ ان میں گزشتہ سال دائر کی گئی ایک درخواست بھی شامل ہے، جس میں انہوں نے اس بنیاد پر فوری ضمانت کی درخواست کی تھی کہ وہ یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا (سات سال) کے نصف سے زیادہ کی مدت پوری کر چکے ہیں۔
ان کے چھوٹے بھائی مزمل نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ان کی زندگی کے چار سال برباد ہو گئے۔ اگر وہ باہر ہوتے تو مزید پڑھ سکتے تھے اور ریسرچ کر سکتے تھے۔ انہوں نے اب تک اپنی پی ایچ ڈی مکمل نہیں کی ہے۔ لیکن ان کا حوصلہ کم نہیں ہوا ہے۔ وہ مسکراتے ہیں، امی کو امید دلاتے رہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔’وہ مزید کہتے ہیں، ‘جیل میں قید کسی بھی سیاسی قیدی کے خاندان کے لیے استقامت باقی نہیں رہتی۔ میری ماں کے لیے ان کی زندگی بس ہم دو بھائی ہیں۔ اب تو ایک طرح سے زندگی ٹھہر سی گئی ہے۔’گرفتاری کے چار سال بعد دہلی ہائی کورٹ نے شرجیل کی ضمانت کی عرضی کو 46 بار لسٹ کیا ہے اور اب ایف آئی آر 59/2020 کے تحت دہلی فسادات کیس میں اگلے ماہ ان کی عرضی پر از سر نو شنوائی ہونی ہے۔ پہلی ایف آئی آر 20/2020، جس کے تحت انہیں ان کی تقاریر کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا، کے تحت ان کی ضمانت کی عرضی اگلے ماہ دہلی کی ایک ٹرائل کورٹ میں نئے سرے سے شروع ہوگی۔مزمل نے کہا جب شرجیل جیل گئے تو گھر والوں کو پتہ تھا کہ شاید ان کی ضمانت ہونے میں چند سال لگیں گے۔
لیکن ہم نے نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنے سالوں تک چلے گا۔ ان کی گرفتاری کے بعد دہلی میں فسادات ہوئے تھے، پھر بھی بے وجہ انہیں اس میں پھنسایا گیا۔’‘تاریخ پر تاریخ’شرجیل کے وکیل احمد ابراہیم کے مطابق، امام کو سی اے اے-این آر سی مظاہروں کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان کی تقریر،جس میں انہوں نے آسام کو باقی ہندوستان سے ‘کاٹنے‘ کو کہا تھا، کے وائرل ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد28 جنوری 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا، ‘تقریر 16 جنوری کی ہے، لیکن 25 جنوری 2020 کو وائرل ہوئی۔ 26 جنوری 2020 تک، ان کے خلاف اتر پردیش، دہلی، آسام، اروناچل پردیش اور منی پور میں پانچ ایف آئی آر درج کی گئیں۔ دو دن بعد، 28 جنوری کو انہیں دہلی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ دہلی ایف آئی آر کے سلسلے میں اپنے وکیل کے ساتھ سرینڈر کرنے جا رہے تھے۔ چند ماہ بعد جب دہلی فسادات کا مقدمہ درج کیا گیا توانہیں ایف آئی آر 59/2020 میں عمر خالد کے ساتھ ضمنی چارج شیٹ میں نامزد کیا گیا تھا۔
انہیں دو اور معاملوں میں بھی ملزم بنایا گیا تھا – جو دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب تشدد سے متعلق ہے۔ ان کے خلاف کل آٹھ مقدمات میں سے پانچ میں انہیں ضمانت مل چکی ہے، ایک میں کبھی گرفتار نہیں کیا گیا اور ان کے خلاف صرف یو اے پی اے کے معاملے ہی بچے ہیں۔’ان پر ایف آئی آر 22/2020 میں یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے، وہیں ایف آئی آر 59/2020، جو دہلی فسادات کی ‘بڑی سازش’ کیس سے متعلق ہے، اس میں ان پر یو اے پی اے کے تحت کئی الزام ہیں۔پچھلے سال اگست میں شرجیل امام نے ایف آئی آر 22/2020، جس میں ان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 153بی، 505، 124اے (سیڈیشن) اور 153اے کے ساتھ یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت الزام ہیں ، کے سلسلے میں سی آر پی سی کی دفعہ 436اے کے تحت فوری ضمانت کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اپنی ضمانت کی عرضی میں انہوں نے کہا کہ 2022 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیڈیشن کے قانون پر روک لگانے کے بعدسیڈیشن کی کارروائی پر روک لگا دی گئی تھی۔
امام کے وکیل ابراہیم بتاتے ہیں کہ دفعہ 436اے کے تحت ان کی ضمانت کی درخواست چار ماہ سے زائد عرصے سے زیر التوا ہے کیونکہ مختلف وجوہات کی بناء پر فیصلہ نہیں سنایا گیا، جس میں پریذائیڈنگ جج امیتابھ راوت کا تبادلہ بھی شامل ہے، جن کے تبادلے کا اعلان دسمبر میں کیا گیا تھا اور آخر میں کہا گیا تھا کہ سماعت کی تاریخ پر اگلے جج نئے سرے سے کیس کی سماعت شروع کریں گے۔ابراہیم کا مزید کہنا ہے، ‘یہ قانونی ضمانت ہے، کیونکہ وہ زیادہ سے زیادہ سزا کی نصف پوری کر چکے ہیں، پھر بھی انہیں ضمانت نہیں دی گئی۔ اب 7 فروری کو ایک اور جج کے سامنے کیس کو لسٹ کیا گیا ہے جو اس معاملے پر نئے سرے سے غور کریں گے اور پھر فیصلہ دیں گے۔انہوں نے مزید کہا، ‘ایف آئی آر 59/2020 کے تحت ان کی ضمانت دہلی ہائی کورٹ میں 20 ماہ سے زیر التوا ہے اور 22 فروری کو سماعت کے لیے لسٹ ہے۔ ایف آئی آر 22/2020 کے تحت ان کی ریگولر ضمانت بھی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، لیکن جب انہوں نے آدھی سزا مکمل کرلی ہے، ہم نے عدالت سے درخواست کی کہ مجھے دفعہ 436اے کے تحت عبوری ضمانت پر رہا کر دیا جائے، لیکن وہ بھی منظور نہیں کی گئی اور ہمیں ٹرائل کورٹ میں جانے کے لیے کہا گیا۔ چنانچہ ہم نے نچلی عدالت سے رجوع کیا جہاں یہ معاملہ پھر سے مہینوں تک زیر التوا رکھا گیا۔ ہمیں امید ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی جج فیصلہ دے گا جہاں دفعہ 436اے کے تحت ضمانت لازمی اہتمام ہے۔
’سرکار کے اشارے پر ہو رہی ہے تاخیر!مزمل کا کہنا ہے کہ اس تاخیر سے پتہ چلتا ہے کہ ‘عدلیہ حکومت کے دباؤ میں کام کر رہی ہے۔’انہوں نے کہا، ‘تاخیر حکومت کی ہدایت پر ہوئی ہے۔ عدلیہ حکومت کے دباؤ میں کام کر رہی ہے۔ ہندوستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔ یہ اس وقت بھی ہوتا تھا جب مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی اور اب بی جے پی کے دور میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ دہلی فسادات کے مقدمات میں ان کی (شرجیل امام کی) ضمانت کی سماعت دو سالوں میں 46 بار ملتوی ہوئی ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سیاسی ہے۔’مزمل کا کہنا ہے کہ عمر خالد جیسے دیگر سیاسی قیدیوں کے برعکس شرجیل امام کو سول سوسائٹی گروپس اور سرکردہ سیاسی کارکنوں کی حمایت نہیں ملی ہے۔انہوں نے کہا، ‘انہوں نے طے کر لیاہے کہ وہ کس کی حمایت کرنا چاہتے ہیں اور کس کی نہیں۔ شرجیل تمام بڑی تنظیموں کے پوسٹر سے غائب ہیں۔ میں سب کے بارے میں بات نہیں کر رہا، لیکن تمام تنظیموں میں عمومی نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو مظلوم کی طرح دکھانا چاہتے ہیں جو سلاخوں کے پیچھے ہے۔ میرا بھائی مظلوم نہیں ہے، وہ فائٹر ہے اور میں انہیں مظلوم کی طرح نہیں دکھانا چاہتا۔’مزمل نے مزید کہا، ‘ہم غیر معمولی لوگ نہیں ہیں، لیکن ہم حقائق کی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں۔ شرجیل کے بولنے کا انداز اور ان کی تقریریں ہمیشہ مختلف رہی ہیں۔
عمر خالد کے پیچھے ایک لابی ہے۔ لیکن شرجیل ایک ایسا شخص ہے جسے سی اے اے –این آر سی کے احتجاج سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ صرف ایک طالبعلم تھے، جو جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ ان کے پیچھے کوئی لابی نہیں تھی۔’مزمل کا کہنا ہے کہ شرجیل امام قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جیل میں قانونی کتابیں پڑھ رہے ہیں اور دیگر غیر مراعات یافتہ زیر سماعت قیدیوں ، جن کے پاس قانونی سہارا نہیں ہے، کی مدد بھی کی ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘ہمارے پاس اس امید کو برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ ایک دن باہر آئیں گے۔ بات بس یہ ہے کہ کسی کی زندگی کے قیمتی سال ضائع ہو رہے ہیں۔ وہ اس کی ضمانت ملتوی رکھ سکتے ہیں لیکن وہ کب تک انہیں جیل میں رکھیں گے؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ‘ہر عروج کو زوال دیکھنا ہوتا ہے’، یہ ہمارے ساتھ ساتھ ان کےلیے بھی سچ ہوگا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں