تازہ ترین

پیر، 22 جنوری، 2024

متحدہ قومیت کی متعفن لاش،ذاکر اعظمی

اسلامی تاریخ میں ہر وہ نظریہ جس کے خمیر میں غیر فطری اتحاد کی امیزش ہو ناکامی اور رسوائی ہی اسکا مقدر رہا ہے، انہیں نظریات میں سے ایک نظریہ متحدہ قومیت کا رہا ہے، بخدا اگر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں متحدہ قومیت کی کوئی اہمیت ہوتی تو "قل یا ایھا الکافرون۔۔۔۔" جیسی اہم سورت قرآن مقدس کا حصہ نہ ہوتی، یہ وہ نظریہ ہے جسکے ہم بھارتی مسلمان کانگریسی مولویوں کی اگوائی میں پچہتر سالوں سے حدی خواں رہے ہیں، جی ہاں یہی وہ نظریہ ہے جو اپنی ولادت کے ایک سال بعد ہی 1948 میں ہی دم توڑ دیا تھا۔
جب صدیوں پرانی بابری مسجد میں مولانا نہرو کی حکومت میں مورتیاں نصب کی گئی تھیں، مگر شاباش ہے ہمارے حکمت و دانائی کے پیکر حاملان متحدہ قومی نظریہ کے مذہبی پرچارکوں پر کہ وہ عدالت عدالت کا کھیل کھیلتے رہے اور مشرک اکثریت کی جھولی میں اپنی دستار توحید کو گروی رکھے رہے، انکا دعویٰ ہے کہ جنگ آزادی میں انکے پرکھوں کا کردار نمایاں رہا ہے مگر یہ کون سی زیرکی تھی کہ حکومت میں شرکت کے بجائے ہندو قیادت پر فخر کرتے رہے، متحدہ قومیت پر ایمان مفصل رکھنے سے قوم کا تو کچھ بھلا نہ ہوسکا البتہ کانگریسی مولویوں کی نسلوں کو اقتدار کے تلچھٹ کا مزہ ضرور ملا۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی مسلمانوں کو مظلوم بن کر مرنے تو کبھی ہندو بنے رہنے کا مشورہ دیا گیا تو کبھی ہندو احیا پسندوں کی سر میں سر ملاتے ہوئے یہ مالا جپی گئی کہ بھارتی مسلمانوں کے لئے دنیا میں سب سے بہتر ملک نریندر مودی کا ہندوستان ہے، اب جبکہ کی متحدہ قومیت کی سڑی ہوئی لاش کے تعفن سے بھارتی مسلمان طاعون کی وبا سے دوچار ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ نسل نو کے ذہنوں کو توحید خالص اور قوت ایمانی سے شرسار کیا جائے اور مستقبل کی ایسی شاہراہ تعمیر کی جائے جسکا سرا نبوت محمدی صلی اللہ وسلم کے نظریہ دعوت وجہاد سے ملتا ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad