وزارتِ داخلہ نے پیر کو ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’سیمی بھارت کی سکیورٹی اور خودمختاری کو نقصان پہچانے کے لیے دہشت گردی کو بھڑکانے اور مختلف کمیونیٹیز کے درمیان ہم آہنگی اور امن کو سبوتاژ کرنے میں ملوث ہے۔‘اس پابندی کا جواز پیش کرتے ہوئے وزارت داخلہ نے پیرکو جاری کیے گئے اپنے نوٹیفیکشن میں 29 وجوہات بیان کی ہیں۔
ان وجوہات میں سیمی کے سابق کارکنوں کے خلاف گزشتہ پانچ برس میں 17 مقدمات کا اندراج، 206 سے 2014 کے دورانیے میں اس تنظیم کے 11 افراد کو جرائم کی وجہ سے سزائیں ہونا شامل ہے۔اس تنظیم کے خلاف تازہ مقدمات میں وہ ایف آئی آر بھی شامل ہے جو 25 اگست 2019 کو راجستھان کے علاقے سوائی مادھپور میں درج ہوئی جس کے مطابق اس تنظیم کے کارکنوں نے جامع مسجد کی چھت سے وِشوا ہندو پرِیشد (وی ایچ پی) کی ریلی پر پتھراؤ کیا تھا۔تاہم کچھ مقدمات میں یہ واضح نہیں ہے کہ مشتبہ افراد کا سیمی سے تعلق ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ این آئی اے‘ نے کچھ افراد کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا ہے جس میں چند افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے2022 میں وزیراعظم نریندر مودی کے دورے کے موقعے پر خلل پیدا کرنے کی سازش کی۔
ایک اور مقدمہ سیمی کے سابق نیشنل جنرل سیکریٹری ثاقب نچن کے خلاف درج کیا گیا ہے جس میں ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کو جہاد یا ہجرت کے لیے تیار کرنے اور انتہاپسندانہ نظریات پھیلانے کے عمل میں ملوث ہیں۔وزارت داخلہ نے کچھ ایسے افراد کا ذکر بھی کیا ہے جن کے بارے میں حکام کا دعویٰ ہے انہوں نے بعد میں انڈیا مخالف مسلح مسلم تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
ریاستوں کو مرکزی وزارتِ داخلہ کی تجویز
انڈیا کی وزارت داخلہ نے کہا کہ آندھرا پردیش، گجرات، جھاڑکھنڈ، کیرالہ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان، تامل نادو، تلنگانہ، اترپردیش کی حکومتوں کو سیمی کو ’غیرقانونی تنظیم‘ قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں