آج کا دن، اور یہ دن کیوں؟
قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کے شوکت پہ زوال آتا ہے.
اس ملک کی تاریخ میں ایک سیاہ دن 6 دسمبر 1992 آیاتھا. جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جو دنیا کے کے لیے امن و آشتی کا علمبردار تھی اور جس ملک کی یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کی مثال پوری دنیا کے زبان پر تھی. اس ملک میں صدیوں پرانا عبادت گاہ دوسری جماعت کے لوگ ایک ساتھ ملکر مسمار کر دیتے ہیں اور پوری پولیس انتظامیہ تماشا بین اس نظارے کو دیکھ کر نہ کچھ کر پاتی اور نہ عدلیہ ان لوگوں کو سزا دے پاتی ہے.
اس ملک کی امن پسند جماعت مسلمان آئین اور عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے مگر تین دہائیوں کے بعد جو فیصلہ آتا ہے وہ حیران کن ہوتا ہے.
اس فیصلے کے چند نکات ملاحظہ فرمائیں.
1. فیصلہ میں مانا گیا کہ 1528ء میں اس مسجد کو میر باقی نے بنایا تھا.
2. 1857-1949ء تک مسجد مسلمانوں کے قبضے میں رہا اور نماز ہوتی رہی
3. آخری نماز 16 دسمبر 1949ء میں پڑھی گئی.
4. 22-23 دسمبر 1949ء کو بابری مسجد میں مورتی رکھنا غیر قانونی تھا اس بات کو عدلیہ نے مانا
5. گنبد کے نیچے کی زمین رام جنم استھان ہے یہ ثابت نہیں ہو پایا.
6. 6 دسمبر 1992 کو مسجد کے ڈھانچے کو گرانا غیر قانونی تھا یعنی قانون کے خلاف تھا.
7. ہندو سالوں سے پوجا کر رہے ہیں اس لئے یہ زمین ان کو دی جاتی ہے. عدالت کا فیصلہ.یہی وہ چند ایسے نکات ہیں جسے مسلم قوم ہمیشہ یاد رکھے گی اور اپنے نسلوں کو یاد رکھوائے گی.
سوچنے کی باتیں
آخر ہندی مسلمانوں کو یہ سیاہ دن اور غیروں کو یہ جشن بہاراں دیکھنے کو کیوں ملا؟
اس ملک میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود مسجد کو ڈھانے کی ہمت ان لوگوں میں کہاں سے آئی.؟
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں ہندو مسلم تنازعہ آزادی سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا. ملک کی آزادی سے تقریباً 25 - 26 سال پہلے ہندوؤں نے ایک تنظیم کی بنیاد اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے بنا لی تھی. مگر جب آئین کمیٹی بنائی گئی تو اس میں ہر قسم کے لوگ تھے جو انصاف پسند اور اس ملک کی سالمیت چاہتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں جمہوری نظام قائم کیا گیا اور ملک کو سیکولر ملک یعنی دھرم نر پیکچھ ملک بنایا گیا.
تیار شدہ آئین ہند نے ان کی راہ میں اک بہت بڑی دیوار قائم کر دیا مگر ان کے عزم مصمم میں کمی نہیں آئی اور انہوں نے آج کے دن کو دیکھنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کیا اور جس طرح وہ اس پر چلے جو قربانیاں انہوں نے دی یہ کسی بھی قوم کے لیے مشعل راہ ہے.
اور جو ان کے کدوکاوش اور کوششوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ آر ایس ایس کے کسی فرد سے پوچھ لے. اس کے بالمقابل جب اس ملک میں اپنے وجود کے بچانے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے اس ملک کو سازگار بنانے کی ذہنی لڑائی شروع ہوچکی تھی اور ہماری مد مقابل قوم دن رات اپنے عقل و شعور سے اس لڑائی کو جیتنے کی کوشش میں گامزن تھی اس وقت ہم لوگ اپنی الگ دنیا میں محو تھے. دشمن ہم پر گھات لگانے کے لئے کمربستہ ہوچکا تھا مگر ہم نیند سے بھی نہیں جاگے تھے.
اور آج جب ان کو ان کی محنت کا نتیجہ مل رہا ہے تو ہم ان کو کوس رہے ہیں. اور خود کی تقدیر پر آنسو بہا رہے ہیں.اس وقت آزادی کی آٹھویں دہائی چل رہی ہے. آزادی کے بعد ساری قومیں اس ملک میں تعلیمی، اقتصادی، معاشی اور سماجی اعتبار سے مضبوط ہونے کی فکر میں گامزن رہی. کاندھے سے کاندھا ملا کر وہ چلے اور ایک دوسرے کو سہارا دے کر سب کو کھڑا کر دیا اور آج وہ سب دوڑ رہے ہیں.
اور آزادی کے بعد بھی ہم اسی مغلیہ سلطنت کے بغیر ریاست کے بادشاہوں کی طرح خواب غفلت میں مست رہے جن کی سلطنت دلی کے ایک محلے تک محدود ہوچکی تھی .اور ہم یہی کہتے رہے
پدرم سلطان بود
اپنے دامن کے لیے خود خار چنے ہم نے
اب یہ چبھتے ہیں تو پھر ان سے شکایت کیسی.
عبدالسلام عادل ندوی
ڈائریکٹر سر سید اکیڈمی جوکی ہاٹ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں