تازہ ترین

اتوار، 21 جنوری، 2024

"سلیقہ تسمیہ نامی کتاب کا ایک تفصیلی تجزیہ "

نام دہی ایک فطری اور معاشرتی تقاضا ہے جسکا ثبوت سر چشمہ ہدایت قرآن کریم میں "وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا " کے تحت واضح طور پر دیا گیا ہے۔ اس گیتی آب و گل کی کوئی شئے ہو یا مخلوق اسکا ابتدائی تعارف نام ہی ہوا کرتا ہے۔
بایں بنا اس کی اہمیت و وقعت اور نفع آوری سے کسی مذہب ،کسی ملت،کسی مسلک ،کسی مشرب کو عذر و انحراف نہیں؛ چنانچہ مذہب اسلام نے دیگر امور کی طرح یہاں بھی تمام تر ادیان و مذاہب پر فوقیت و فضیلت لے جاتے ہوئے جس تخصیص کے ساتھ اس پہلو پر روشن بیانی کا مظاہرہ کیا ہے دیگر ادیان اس سے  تہی دامن اور خالی ہیں۔اس کا واضح ثبوت کتب احادیث و فقہ میں موجود معتد بہ مواد ہے ۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ جس اہمیت کا حامل یہ عنوان تھا علاوہ چند اندیش مندوں کے کسی نے اسے نگاہ اہمیت  نہیں دی نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
انہیں اندیش مندوں میں سے ایک شخصیت  مصنف حضرت مولانا عبد الرب صاحب دامت فیوضہم کی ہے آپ کا تعلق صوبہ یوپی کے اپنی کشادگی و وسعت پزیری کے لحاظ سے سب سے بڑے ضلع لکھیم پور کھیری کے ایک گاؤں سنسار پور، جو اب تقریبا ایک قصبے کی حیثیت رکھتا ہے، سے ہے سن 82ء میں آپ کے والد خدمت دین کے لیے ساحل گنگا پر واقع ضلع  فرخ آباد تشریف لائے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ 
اللہ عزوجل نے آپ کو مختلف و متنوع صلاحیتوں سے متصف کیا ہے یہی وجہ ہے کہ علاقے میں آپ اپنی الگ حیثیت اور پہچان رکھتے ہیں۔
آپ عوام و خواص کے درمیان شہسوارِ  خطابت اور نطق و گویائی کی درِ تابدار کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں لیکن قلمی لیاقت،  اسلوب کی سادگی و پرکاری، شگفتگی و جاذبیت، توازن و تناسب، سلاست و روانی، اعتدال و جامعیت، اور فکر و تخیل کی بلندیوں کو میرے ناقص خیال کے مطابق کم ہی لوگ جانتے ہیں۔
یہ آپ کی فکر مندی اور اندیش مندی ہی کا نتیجہ ہے کہ ایک ایسا موضوع جس سے سب نے صرف نظر کر رکھا ہے کوئی بولنے اور لکھنے کو تیار نہیں آپ نے تقریبا پانچ سو صفحات پر مشتمل سلیقئہ تسمیہ نامی ضخیم و جسیم کتاب لکھ ڈالی یاد رہے کہ یہ مصنف کی پہلی تصنیف نہیں ہے بلکہ ماضی قریب میں جب کسی کج فکر نے خطہ لکھیم پور و اطراف میں خلافت و ملوکیت سے متاثر ہوکر وراثت کے معاملے میں بد تمیزی اور کج روی کا مظاہرہ کیا ایسے وقت میں مصنف نے قلم اٹھایا اور مودودیت کی خانہ تلاشی نامی رد لکھا اس کے علاوہ دیگر مقالات و مباحث نوک قلم سے قرطاس پر ثبت کیے جو آج بھی دارالعلوم دیوبند کے رکارڈ میں موجود ہیں ۔
بہر حال یہ الگ موضوع ہے جو یہاں پر مطلوب نہیں ہے بلکہ مطلوب سلیقئہ تسمیہ(نام کب اور کیسے رکھیں ) کا تعارف ہے۔
کتاب کی مقبولیت کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس کا آغاز ان شخصیات کی تقاریظ سے ہوتا ہے جو عرب و عجم میں بیک وقت مشہور و معروف ہیں جن میں سر فہرست حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مہتمم ام المدارس ،حضرت مولانا مفتی محمد راشد اعظمی صاحب نائب مہتمم ام المدارس و حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری دامت فیوضہم استاذ حدیث ام المدارس ہیں۔
اس کے بعد مصنف کا  دیباچہ "وہ جو لکھنے کا سبب ہوا" کے عنوان سے ہے، پھر ایک سو اکیس عنوانات پر مشتمل  مباحث ہیں۔
جن میں اہم اور ضروری مباحث کچھ اس طرح ہیں 
نام رکھنا ایک فطری تقاضہ ہے، قرآن سے نام رکھنے کی جسارت دیکھیے ،اچھے نام رکھیے ،اللہ کو اظہار عبدیت بہت پسند ہے،لفظ عبد سے نام رکھنے کے اصول،کون اور کیسے نام پسندیدہ ہیں، خود ستائی والے نام نہ رکھیں، نام انسانی مزاج کے مطابق ہونا چاہیے ،نام اور نسبت کا شخصیت پر بڑا اثر پڑتا ہے، نام شخصیت کو ہی نہیں بلکہ نسل کو متاثر کرتا ہے، تسمیہ کی تیاری و تسمیہ کا طریقہ، کنیت کیا ہے کنیت کا طریقہ ،نام کب رکھنا چاہیے، مردہ ناتمام یا کچے ساقط ہوجانے والے بچے کا بھی نام رکھنا چاہیے، کیسے معنی پر مشتمل نام رکھیں، تسمیہ کا خاص زاوئہ نظر،جب آپ سے نام رکھوایا جائے تو کیسا رکھیں ،نئے نام رکھنے کا خبط،نام کس زباں کے رکھیں،صحابہ و صحابیات کے ناموں کی جنس تبدیل نہ کریں،محمد نام کے فضائل و برکات، صحابہ کے نام رکھنا بھی باعث برکت ہے،فرشتوں کے ناموں پر  نام رکھنا کیسا ہے؟تسمیہ کا معیار اچھی طرح سمجھیے،صحابہ کے یکساں ناموں کا ایک جائزہ،یزید نام رکھنا کیسا ہے،تاریخی نام کیاہوتا ہے،ناموں کے سلسلے میں لکھی گئی کتابوں کا تجزیہ،نئے ناموں کا شوق پورا کرنے کا طریقہ وغیرہ وغیرہ 
جن میں مصنف نے درد و کرب  اور حسرت و یاس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ تسمیہ و نام دہی کے تعلق سے نہایت عرق ریزی و جاں فشانی سے مختلف جہات اور گوشوں پر تفصیلی بحث کی ہے ۔
کتاب کے آغاز سے ہی مصنف نے بڑی ہی جذباتییت کے ساتھ تسمیہ کے سلسلے میں معاشرے میں رائج جاہلانہ و غیر عارفانہ طرز کو چھوڑ کر سردار انبیاء ﷺ کے طرز عمل کو اپنانے پر زور دیا ہے ۔
معاصر میں  قرآن کو book of nomination(نام رکھنے کی کتاب) بنا لینے پر مصنف کا درد و کرب کچھ اس طرح چھلکا ہے کہ '' قرآن کریم ہدایت،تلاوت ،تذکیر اور نوعیت سے زیادہ نام رکھنے کی کتاب بنا ہوا ہے محلہ کی ماہر رسومات و خرافات بوڑھیاں جو اتفاق سے کثرت تلاوت میں مشہور ہوجاتی ہیں وہ اس وقت نام رکھنے کی سب سے بڑی استانیاں بنی ہوئی ہیں۔محلہ کی خواتین اپنے بچوں کے نام انہیں سے رکھوانے جاتی ہیں اور پھر وہ بڑی بی ایسے گل کھلاتی ہیں کہ علوم قرآن اور عربی سے واقف شخص ان ناموں کو سن کر پسینہ پسینہ ہوجائے۔
کسی کا نام انعمت کسی کا راحمین،ناظرین،اقراء، من تشاء،علینا،الینا،فیھا،وریشا،نکم،اھدنا،اشقی،الف،شھر،لتش،لاغیہ،صاعقہ،اثیم، اثما،ابتر و انحر تجویز کردیتی ہیں۔خدائے عز وجل کی قسم یہ قرآن کریم کے ساتھ بد ترین مذاق اور نئی نسل کی تربیت کے ساتھ افسوسناک کھلواڑ ہے ''
مزید ایک جگہ تسمیہ کے سلسلے میں ہی بے مہاری و بے لگامی پر ہدایت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ" نام صرف لفظ و معنی کے اعتبار کا نام نہیں بلکہ ہم پابند ہیں نبی کی تعلیمات اور نبی کی ہدایات کے ہمارے پیروں میں شریعت مطہرہ کی زنجیریں اور ہماری خواہشات پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی منشا کا پہرہ ہے"
اور یہ اقتباس ان لوگوں کے لئے حوصلہ خیز اور ہمت افزا ہے جو اس کہتر احساس کا شکار ہیں کہ ہماری کون سنتا ہے؟ہمارے کہنے سے کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ؟
لکھتے ہیں "کہ کوششوں سے تبدیلیاں آتی ہیں، محنت سے رنگ بدلتے ہیں، سعی سے انقلاب پیدا ہوتا ہے حالات بدلتے ہیں بیداری اور شوق پیدا ہوا ہے، جہالت کے اندھیرے چھٹتے ہیں  یہ کہہ بیٹھ جانا کہ آج کون کس کی مانتا ہے یا کوئی مانتا ہی نہیں کہہ کر کوششیں چھوڑ دینا کھلی مداہنت ہے آپ کو بیٹھ جانے کی اجازت نہیں کیوں کہ آپ سے سوال کوششوں اور پیغام رسانی کا کیا جائے گا نتائج کا سوال آپ سے نہیں ہوگا" 
یہ دو تین اقتباس بطور نمونہ پیش کیے ہیں۔
اس کے علاوہ سہولت کے لیے ناموں کی ایک طویل فہرست بھی ہے جو ان ناموں پر مشتمل ہے جنہیں زبان رسالت سے  بار بار ادا ہونے کا شرف و فخر حاصل ہے ۔بطور خاص خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ،مہاجرین حبشہ،اصحاب عقبہ، اسماء بدر،شہدائے احد،کاتبین وحی وغیرہ وغیرہ کے اسماء شامل ہیں ۔
مختصر یہ کہ پوری کتاب پڑھے جانے کے لائق ہے ممکن ہے بعض جگہ لہجے کی سختی جو بغرض اصلاح ہی ہے یہ کہنے پر  مجبور کرے کہ مصنف نے کچھ زیادہ ہی جذباتیت کا مظاہرہ کیا ہے تو  نظر انداز کریں کیوں کہ یہ عنوان ہی ایسا ہے دوسری بات مصنف ایک خطیب ہیں نا چاہتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں لکھنے میں انداز خطابت روشن ہونا امر عجب نہیں ہے یہ بات تجربہ اور مشاہدہ کے طور پر لکھ رہا ہوں۔ 
اور بعض جگہ ٹائپنگ کی غلطیاں بھی ہیں جسکا احساس مصنف کو بھی ہے امید ہے کہ انشاءاللہ اگلے ایڈیشن میں شکایت کا موقع نہیں ہوگا۔

حذیفہ ایوبی

کتاب کے لیے دارالکتاب و ادارہ فیصل دیوبند کے ساتھ اس نمبر پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں ۔
9170620786

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad