تازہ ترین

اتوار، 28 جنوری، 2024

حضرت شاہ اکبر داناپوری کا دو روزہ 118 واں سالانہ عرس اختتام پذیر

پٹنہ : خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور میں حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعُلائی داناپوری کے دو روزہ 118 واں سالانہ عرس کی تقریبات ہفتہ کی صبح پہلے قل سے ہوئی، اس موقع پر مختلف اضلاع سے زائرین شریک عرس ہوئے، یہ عرس لوگوں کو اخوت و ہمدردی اور سالمیت و استحکام کے ساتھ اخلاص و اخلاق کی مکمل تعلیم دیتا ہے، لوگ کثرت کے ساتھ یہاں حاضر ہوتے ہیں اور اکتسابِ فیض کرتے ہیں، عرس کی ابتدا ہفتہ کی صبح فجر کی نماز کے بعد قرآن خوانی اور وقتِ چاشت پہلا قل حضرت مولانا شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی سے عمل میں آیا جس میں حضرت شاہ نصر سجاد ابوالعلائی کی دعا ہوئی، قیام و طعام کے بعد خانقاہ میں لوگوں نے مغرب کی نماز ادا کی پھر محفلِ تذکیر کا آغاز تلاوت سے ہوا، حمد و نعت کے بعد مولانا شاہ حیات احمد ابوالعُلائی نے کہا کہ حضرت اکبر کی علمی و روحانی کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں اپنے عہد کا معتبر صوفی و عالم قرار دیا، حضرت اکبر سے اپنی عقیدت کا اظہار والہانہ انداز میں کیا، انہوں نے حضرت اکبر کے توکل اور مجاہدانہ زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں اپنے عہد کا ممتاز صوفی قرار دیا، حضرت اکبر کی ولایت و معرفت اور ان کی صوفیانہ شاعری کے حوالے سے علمی گفتگو بھی کی، اسی طرح شاہ عمران خالد ابوالعلائی، شاہ علی نظامی، خواجہ مجتبیٰ حسین، شبلی ابوالعُلائی، کرامت علی وغیرہ نے بارگاہِ رسالت میں نعتِ پاک پیش کیے۔

مولانا شاہ محمد ریّان ابوالعُلائی نے کہا کہ صوفیائے کرام ہی کے نقشِ قدم پر چل کر آج معاشرے میں روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوسکتا ہے، انہوں نے حضرت شاہ اکبر داناپوری کی سیرت و کتب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک خدمتِ خلق سب سے بڑی عبادت تھی، موجودہ عہد میں اصلاح معاشرہ کے لیے صوفیوں کی روش پر قائم رہنا وقت کی ضرورت ہے، محفل کا اختتام حضرت شاہ نصر سجاد ابوالعلائی کی دعا پر ہوا اس طرح عشا کی نماز کے بعد خانقاہ سے عقیدت مند آستانہ عالیہ کی طرف چادر لے کر روانہ ہوئے جس میں عقیدت مندوں کی بڑی تعداد شامل رہی، آستانہ حضرت شاہ اکبر داناپوری پر سجادہ نشیں حضرت حاجی شاہ سیف اللہ ابوالعلائی کی اجتماعی دعا ہوئی جس میں ہندوستان اور پوری دنیا کے انسانوں کی تحفظ و بقا کے لیے دعائیں مانگی گئی۔
عرس کے دوسرے روز اتوار کو وقتِ چاشت تک بزرگان دین کے تبرکات مقدسہ کی عام زیارت کرائی گئی جس میں لوگوں نے بڑی عقیدت کے ساتھ زیارت کی، حسبِ معمول اس دوران حضرت شاہ محسن داناپوری کی لکھی فارسی زبان میں منقبت خوانی کا سلسلہ بھی جاری رہا آخر میں حضرت شاہ نصر سجاد ابوالعلائی کی دعا ہوئی۔
صبح ۱۰ بجے سے حضرت شاہ اکبر داناپوری کی تصنیفات کی تقریب رونمائی شروع ہوئی، خدا کی قدرت اور اس کے وجود پر پُرارزش رسالہ ’’خدا کی قدرت‘‘، وحدت الوجود پر ایک قیمتی رسالہ ’’سُرمۂ بینائی‘‘ سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ کے مریدین و متوسلین کے لیے ۴۰؍ قیمتی نصیحتوں کا مجموعہ ’’اِلتماس‘‘ اور ریختہ فاؤنڈیشن کے صوفی نامہ کے ذریعہ ہندی زبان میں مولانا سیّد شاہ محمد ریّان ابوالعُلائی کی چار کتابیں بہار کی قوالیاں، نصرت فتح علی خاں کی قوالیاں، خواجہ رکن الدین عشقؔ کا انتخاب ’’عشق نامہ‘‘ اور پیر نصیرالدین نصیرؔ کا انتخاب ’’ان پہ وہ آنا دل کا‘‘ مکمل سات کتاب کا رسمِ اجرا عمل میں آیا، اس کی نظامت مولانا شاہ محمد ریّان ابوالعُلائی نے کی، اس موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر نیشنل پرائیوٹ اسکول اینڈ چلڈرن ویلفیر سوسائیٹی کے صدر سید شمائل احمد نے حضرت اکبر کی علمی حیثیت اور اردو کے حوالے سے ان کی کتابوں پر قیمتی باتیں کیں، مجلس میں شاہ الحاج الدین ابوالعُلائی، شاہ عمران احمد، وسیم اختر، سرفراز خرم، بلال نظامی انجمؔ، منورؔ داناپوری، صوفی جمال، شکیلؔ شہسرامی، جمالؔ کاکوی، فیصل کلیم، ابصار بلخی، مفتی رضا نور ابوالعُلائی، سید نسیم انظر، سید ذیشان احمد، طحہٰ عثمانی، مولانا خورشید انور اور عمر احمد ناظم، صوفی صدیق ابوالعُلائی وغیرہ پیش پیش رہے۔
بعدۂ حسب معمول محفل کی ابتدا مشہور کلام ’’اے بے نیاز مالک، مالک ہے نام تیرا‘‘ سے ہوا، اس کے علاوہ مخدوم شاہ محمد سجاد پاک، حضرت شاہ اکبر داناپوری، حضرت شاہ محسن داناپوری اور بیدم شاہ وارثی کے دیگر مشہور کلام بھی پڑھے گئے جس سے محفل کی کیفیت میں مزید اضافہ ہوا، عرس میں آئے ہوئے زائرین کے علاوہ علما و مشائخ و نمائندگان نے بھی شرکت فرمائی، عرس اکبری کا اختتام آخری قل حضرت مولانا شاہ محفوظ اللہ ابوالعُلائی پر ہوا، آخر میں حضرت شاہ نصر سجاد ابوالعُلائی نے ملک و ملت کی سلامتی کی دعائیں کئیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad