تازہ ترین

پیر، 4 دسمبر، 2023

جنگ پسند ٹولہ

جنگ پسند ٹولہ
از: مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی

امریکہ کا نام یوں تو بہت بڑا ہے؛ لیکن عمر کے لحاظ سے وہ کویت سے بھی چھوٹا ہے۔ یہاں مختلف ملکوں، مختلف تہذیبوں، مختلف عقائد، مختلف طبائع، مختلف زبانوں اور مختلف نظریات وخیالات کے لوگ رہتے ہیں۔ امریکہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ان کو باہم مربوط رکھ سکے اور ان میں اتحاد پیدا کرسکے، سوائے اس کے کہ ان کو کوئی باہری خطرہ دکھایا جائے اور اس کی دہشت ان کے دلوں میں پیدا کی جائے اور اس سے ڈرا کر ان کو اپنے باہمی اختلافات ونزاعات بھلاکرمتحد رہنے پر مجبور کیا جائے۔

 یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو ہر کچھ دن میں ایک نئے دشمن کی تلاش ہوتی ہے اور وہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے نیا دشمن تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ کچھ غلطی اور ناسمجھی اس کے دشمن کی طرف سے بھی ہوتی ہے جو اپنی نادانی کی وجہ سے امریکہ کے لیے راہ ہموار کردیتا ہے ۔

امریکہ اگر ایسا نہ کرے تو وہ خود خا نہ جنگی کا شکار ہوجائے اور وہاں آباد مختلف قوموں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظرآئیں اور خود امریکی حکومت اور امریکی صدر کو لے کر اتنے سوالات کھڑے کیے جائیں جن کا جواب دینا امریکی صدر کے لیے مشکل ہوجائے۔ انہی سوالات سے بچنے کے لیے امریکہ عوام کو ایک دشمن دکھا کر اور دشمن بھی ایسا جو ایک ساتھ پورے یورپ، امریکہ اور دوست ممالک کو اس طرح دھمکی دے رہا ہو کہ اب گھسا کہ تب گھسا، امریکی حکومت اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ 


۱۹۵۰ء سے ۱۹۷۵ء تک ویتنام کو دشمن کی شکل میں پیش کرتا رہا اور اس طرح پچیس سال تک ملک میں جنگ کا ماحول بنا کر امریکی حکومت اپنے عوام کو بیوقوف بناتی رہی۔ اس کے بعد اس نے کوریا کا ہوّا کھڑا کیا، پھر عرب دنیا کا شکار کرنے کے لیے اس نے ایران کو اپنے جال کے طور پر استعمال کیا۔ صدام حسین اور اس کے کیمیائی ہتھیاروں کا خوف اپنے عوام کے دلوں میں پیدا کرکے ان کو بیوقوف بنایا۔
 عرب ملکوں میں دہشت پیدا کرکے جتنا ان کو دُوہ سکتا تھادوہا۔ کبھی اسامہ بن لادن کے نام کا استعمال کیا اور کبھی ابوبکر بغدادی کا، کبھی ملا عمر کا نام اخبارات کی سرخیوں میں آتا تھا تو کبھی ایمن ظواہری کا ، کبھی طالبان سے ڈرایا تو کبھی داعش سے اور ان کے متعلق فیک ویڈیوز جو دکھائی جاسکتی تھیں وہ دکھائیں۔ یہ سب کام ایک مقصد کے تحت بڑی منصوبہ بندی سے اور موافق اور مخالف دونوں کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کرکے کیے گئے۔ دنیا کچھ سمجھتی رہی اور ہوتا کچھ رہا ۔

سچی بات یہ ہے کہ امریکہ یہ سب چالیں اس لیے چلتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنا کوئی خارجی دشمن نہ بنایا اور اپنے باشندوں کے دل میں اس دشمن کا ڈر نہ بٹھایا تو یقینا وہ داخلی انتشار وخلفشار کا شکار ہوجائے گا اور مختلف طبقات وقبائل کے درمیان عقیدہ وزبان اور تہذیب وثقافت کی بنیاد پر ہونے والی خانہ جنگی کا نہ تھمنے والا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجائے گا کہ اس کے بعد خواہ وہ اپنی فوجی طاقت میں کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو مگر اس کو اپنے خطہ میں ہونے والی داخلی کشمکش پر کنٹرول پانا ممکن نہ ہوگا۔


اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنے عوام کو ہمیشہ یہ تاثر دیتا رہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار نے اس جنگ پسند ٹولہ کے بارے میں کہا کہ ایک مخصوص عسکری نظریہ امریکہ کی پالیسی میں شامل ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اپنے ملک کے باہر کسی نہ کسی دشمن سے جنگ کرنے کے انتظار میں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حکمت عملی کے طور پر جن ملکوں کو نشانہ بنانا چاہتا ہے تو ان کے اندرونی مسائل کو ہوا دیتا ہے اور علاقائی کشمکش پیدا کرکے دخل اندازی کا موقع اور ساتھ ساتھ ہتھیار کی سپلائی کا راستہ نکال لیتا ہے۔


 امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی کا انحصار عالمی منڈی کے استحکام اور اس کی درآمدات وبرآمدات کو امریکی معیشت کے نفع کے لیے کنٹرول کرنے میں مضمر ہے۔ اس لیے کہ امریکی معیشت کا دار ومدار ترقی پسند معیشت پر نہیں؛ بلکہ جنگی معیشت پر مبنی ہے اور اس کی بقا جنگوں ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جنگوں پر مجبور ہے اور اسی لیے کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ اس نے محض اپنی اقتصادی حالت کوبہتر بنانے کے لیے بغیر کسی وجہ کے جنگیں چھیڑ ی ہیں۔


امریکہ کی جو کمپنیاں ہتھیار بناتی ہیں اور جو سرمایہ دار افراد ان کمپنیوں کے مالک ہوتے ہیں‘ وہ لوگ امریکی حکومت میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، یا ان لوگوں کے حکومتی سطح پر تجارتی تعلقات بے انتہا مضبوط ہوتے ہیں،جس کی بنیاد پر ان کی کمپنیوں کو غیرمعمولی منافع حاصل ہوتا ہے، کیونکہ جب جنگیں چھڑتی ہیں اور وہ دیر تک چلتی ہیں تو ان میں خرچ ہونے والی رقم یہی کمپنیاں اتحادی یا شکست خوردہ ممالک کو ادا کرتی ہیں، یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ میں ہتھیار بنانے والی پندرہ کمپنیوں میں سے تیرہ کمپنیاں یہودیوں کی ہیں، 

جس طرح ہتھیار بن رہے ہیں اسی طرح اس کی کھپت بھی چاہیے اور اس کے لیے منڈی بھی چاہیے اور ایسے خریدار چاہیے جو ان ہتھیاروں کی خریداری کی طاقت رکھتے ہیں، پٹرول کی دولت سے مالا مال عرب ممالک سے بہتر ہتھیاروں کا خریدار اور کون ہوسکتا ہے ، 

جن کا کام صرف ہتھیار خریدنا، اسٹاک کرنا اور آپس ہی میں اس کا استعمال کرلینا ہے۔ مزید یہ کہ جب جنگ بندی ہوجاتی ہے تو اس کے بعد تعمیر کا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور اس وقت یہ امریکی کمپنیاں آگے بڑھ کر تعمیر کے نام پر خوب منافع حاصل کرتی ہیں اور اس طرح تعمیر وترقی کے نام پر عرب ملکوں کی تجوریوں کے منہ کھل جاتے ہیں اور پھر ایک بار امریکی اوریہودی تعمیراتی کمپنیوں کے اکاونٹس میں رقمیں آنے لگتی ہیں، گویا کہ امریکہ ڈھانے کے بھی پیسے لیتا ہے اور بنانے کے بھی۔

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے ہر جنگ، ہر سیاسی کشمکش، ہر بغاوت اور ہر فوجی انقلاب یا ہر حکومتی اورنسلی ٹکراؤ کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ نظر آتا ہے، اس لیے کہ اس کی زندگی جنگوں ہی میں ہے اور اگر یہ خارجی جنگیں نہ ہوں تو یقینی بات ہے کہ امریکہ زار ونزار ہوکر اپنی موت آپ مرجائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad