صرف والدین ہی مظلوم نہیں!
تحریر : عبدالغفار سلفی، بنارس
ہمارے یہاں عموماً جمعہ کے خطبوں میں اور عام تقریروں میں والدین کے حقوق سے خاطر خواہ گفتگو ہوتی ہے، عمومی مزاج ایسا بنا دیا گیا ہے کہ والدین ہمیشہ مظلوم ہوتے ہیں اور نالائق اولاد ان کے ساتھ بد سلوکی کرتی ہے. یقیناً سماج کی ایک تصویر یہ ہے بھی.
لیکن سماج کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جس کی جانب ہمارے علماء، خطباء اور مصلحین کی توجہ کم ہے اور وہ یہ ہے کہ بہت سارے گھروں میں بگاڑ کا سبب اولاد کی نافرمانی اور سرکشی نہیں بلکہ والدین کی انانیت، ضد اور نا انصافی بھی ہے. کتنے گھر صرف اس وجہ سے برباد ہو گئے کہ والدین اپنی فضول ضد اور ہٹ دھرمی قائم رہے.
کتنے گھروں میں ساس کے سوتیلے سلوک نے ساس اور بہو کے رشتے میں ہی نہیں بلکہ اولاد اور والدین کے رشتے میں بھی درار ہیدا کر دی.
ہمیں یہ اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ والدین کا مقام اپنی جگہ، انہیں شریعت نے جو مقام و مرتبہ دیا ہے وہ اپنی جگہ، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ صحیح ہی ہوں. رویے ان کے بھی غلط ہو سکتے ہیں، زیادتی ان کی جانب سے بھی ہو سکتی ہے. افسوس ہمیں نافرمان اولاد کے ستم کے مارے والدین کے آنسو تو خوب دکھتے ہیں لیکن والدین کے ظلم اور نا انصافی کی شکار اولادیں ہماری توجہ کا مرکز نہیں بن پاتیں.
حال ہی میں ایک سفر میں ایسے ہی ایک صاحب سے میری ملاقات ہوئی. ان کے والد صاحب کے پاس لاکھوں کی جائداد اور کھیتیاں ہیں. چھ بیٹے ہیں سب الگ الگ رہتے ہیں، صرف چھوٹا والا بیٹا والد صاحب کے ساتھ رہتا ہے. والد صاحب اپنی تمام جائداد کی آمدنی صرف اپنے ایک بیٹے پر خرچ کرتے ہیں، باقی بیٹوں کی ضروریات سے انہیں قطعاً کوئی مطلب نہیں.
حالات یہ ہے کہ دیگر بیٹے اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے لوگوں سے قرض مانگ رہے ہیں اور باپ کی لاکھوں کی جائداد ہوتے ہوئے بھی انہیں اس میں ایک ہھوٹی کوڑی مانگنے کا حق نہیں.. سماج کی یہ بے اعتدالی رشتوں کے تعلق سے ایک خطرناک ذہنیت کو فروغ دے رہی ہے. اگر باپ اولاد کی کمائی پر "أنت ومالك لابيك" والی حدیث سنا کر اپنا پورا حق جماتا ہے جب کہ اہل علم جانتے ہیں کہ اس حدیث میں باپ کو اولاد کے سارے ہی مال میں صرف تصرف کا حق دیا گیا ہے۔
اسے بیٹے کے کل مال کی ملکیت نہی دی گئی ہے. تو اسی طرح والد کے پاس اگر مال اور سرمایہ ہے اور اولاد ضرورت مند ہے تو شرعاً اور اخلاقا ہر لحاظ سے اس مال میں اولاد کا بھی حق ہے اور اگر والد کسی ایک بیٹے کو خوب نواز رہا ہے اور دیگر بچوں کو محروم کر رہا ہے تو یہی وہ صریح ظلم اور نا انصافی ہے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کو (جب وہ صرف اپنے ایک بیٹے نعمان رضی اللہ عنہ کو ایک باغ ہبہ کرنا چاہ رہے تھے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانا چاہ رہے تھے ) متنبہ کرتے ہوئے فرمایا تھا : "لا أشهد على جور" میں ظلم پر گواہی نہیں دے سکتا.
بعض گھروں میں یہ مشاہدہ بھی ہے کہ رشتوں ناطوں اور گھریلو مسائل میں والدین کی نہایت فضول ضد کے سبب معاملات خراب ہو جاتے ہیں.. کہیں کہیں والدہ کی طرف سے بہو کے سلسلے میں صریح زیادتی ہوتی ہے. اپنی بیٹی کے لیے اس کے سسرال میں جو چیزیں سخت نا پسند کی جاتی ہیں اپنی ہی بہو کے ساتھ وہ سب روا رکھا جاتا ہے.. سماج کا یہ یک رخا پن آج بہت سارے گھروں میں تقسیم اور درار کا سبب بن رہا ہے.
والدین کو سمجھنا چاہیے کہ بچے جب بڑے ہو جائیں تو انہیں بہت سارے فیصلوں کی آزادی ملنی چاہیے، ان کی زندگی کے بڑے بڑے امور میں خود ان کی پسند و ناپسند کا لحاظ بھی ہونا چاہیے..
والدین حکمت و محبت کے ساتھ انہیں صحیح اور غلط کی رہنمائی کریں نہ کہ اپنے فیصلے ان پر تھوپیں. ضد اور انانیت سے رشتوں کی ڈور کمزور پڑنے لگتی ہے اور ایک دن ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے.
علماء اور مصلحین سے گزارش ہے کہ جب حقوق پر بات کریں تو سماج کے دونوں رویوں پر نظر رکھیں، اولاد کی بے اعتدالی پر گفتگو کریں تو والدین کو ان کے فرائض بھی یاد دلائیں. مجبور والدین کے آنسوؤں کی جانب سماج کی توجہ مبذول کرائیں تو مظلوم اولاد کے مسائل بھی حل کرنے کی کوشش کریں. وباللہ التوفيق
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں