دنیا کا سب سے پہلا مدرسہ
مسجدیں جب سے وجود میں آئی ہیں ان میں درس و تعلیم کے حلقے بھی اسی وقت سے قائم ہوتے رہے ہیں ، چناں چہ اسلام میں سب سے پہلے مدرسہ یا تعلیم گاہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، یہی وہ چبوترہ تھا جو اسلامی تاریخ میں صفہ کے نام سے مشہور ہے اور اس چبوترے پر رہنے اور قیام کرنے والے خوش نصیب حضرات اصحابِ صفّہؓ کے نام سے مشہور ہیں ۔ اسی دینی تربیت گاہ کے طالب علم یعنی اصحابِ صفّہؓ کی تعداد مختلف اوقات میں کم و بیش ہوتی رہتی تھی ، لیکن اوسطاً ان کی تعداد ستّر سے اسّی کے درمیان رہتی تھی ان کی تعلیم کے لئے معلّم مقرّر تھے اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے جب کہیں مبلغ بھیجنا ہوتا تھا تو یہی لوگ بھیجے جاتے تھے ۔
صفہ پر رہنے والوں کی خبر گیری بعض کھاتے پیتے صحابہؓ کے سپرد تھی ، ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو دن میں جنگل سے لکڑیاں لاکر ان کو فروخت کر کے اپنا کام چلاتے تھے اور رات کو علم دین حاصل کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر بعض اہل ثروت صحابہؓ ان کی امداد بھی فرماتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود ان کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا انتظام فرماتے تھے ۔ حضرت معاذ بن جبلؓ جو مشہور صحابیؓ ہیں ان اصحاب صفہؓ کے منتظم تھے ۔
خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک درس و تدریس کی جو اہمیت تھی اس کا اندازه اس واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے آپ نے وہاں صحابہ کرامؓ کے دو حلقے دیکھے، ایک حلقے میں لوگ تلاوت و دعاء میں مشغول تھے اور دوسرے حلقے میں قرآن مجید کے درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا " ( میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ) یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کے حلقہ درس میں تشریف فرما ہو گئے ۔
( سنن ابن ماجه باب فضل العلماء )
یہ واقعہ قیام مدینہ کے زمانے کا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ کو اسلام کی درسگاہ بننے کی اولیت کا شرف ہجرت سے قبل ہی حاصل ہو چکا تھا، چناں چہ ہجرت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیرؓ اور حضرت ابن ام مکتومؓ کو مدینہ منورہ میں مامور فرما دیا تھا کہ یہ حضرات انصارؓ کو قرآن مجید کی تعلیم دیں ۔ ( صحیح بخاری التفسیر ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ عرصہ تک صحابہ کرامؓ کی تمام تر توجہ قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے پر مرکوز رہی ،
حضرت عمر الفاروقؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں حضرت معاذ ابن جبلؓ اور حضرت عبادہ ابن الصامتؓ و حضرت ابو درداءؓ کو شام اور فلسطین میں مامور فرمایا کہ وہاں لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیں۔ (اسد الغابہ )
حضرت ابو درداءؓ صبح کی نماز کے بعد جامعِ دمشق میں قرآنِ پاک کا درس دیتے اور ہجوم کی کثرت کی بناء پر دس دس حضرات کی الگ الگ جماعت بنادیا کرتے تھے اور ہر جماعت کا ایک نائب مقرر ہوتا جو ان کو قرآن مجید پڑھایا کرتا ۔ آپ ان جماعتوں کے درمیان ٹہلتے رہتے اور پڑھنے والوں پر لگے رہتے ۔ طالب علم جو پورا قرآن پاک یاد کر لیتا تو حضرت ابو درداءؓ براہِ راست اس کو اپنی شاگردی میں لے لیتے ۔ ایک مرتبہ حضرت ابو درداءؓ نے شمار کرایا تو معلوم ہوا کہ ان کے حلقہ درس میں سولہ سو(۱٦٠٠ ) طالب علم ہیں۔
حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ان مکاتب کو اور زیادہ وسعت حاصل ہوئی اور تمام ممالکِ مفتوحہ میں جابجا مکاتب اور مدارس قائم ہو گئے ۔ یہ انتظام قرآن مجید کے اور بچوں کی ابتدائی تعلیم کے متعلق تھا۔ حضرت عمرؓ نے قرآن پاک کی تعلیم کے لیے جو معلمین متعین کئے تھے ان کی تنخواہیں مقر رکی تھیں اور ہر معلم کو پندرہ پندرہ دِرہم ماہانہ تن خواہ بیت المال سے ملتی تھی. (إِزالۃ الخفاء ، ص: 6 ، علامہ ابن جوزیؒ سیرت العمرؓ )
صدیاں اور سال گذرتے چلے گئے لیکن یہ سلسلہ مختلف بلادِ اسلامیہ میں برابر قائم رہا اور اسلامی فتوحات کے ساتھ ساتھ جب اسلامی علوم سے دنیا کے بیشتر علاقے جگمگانے لگے تب بھی مسجدوں کو برابر دینی تعلیم کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا اور مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور سے ہی مساجد سے ہونے والے فائدوں کو وسیع تر کرنے میں بڑے تدبّر سے کام لیا ، انہوں نے اسے بیَک وقت عبادت گاہ بنایا اور تعلیم کے لئے بھی اُسے استعمال میں لائے ، قضاء کا کام بھی زیادہ تر وہیں ہونے لگا ساتھ ہی لشکر کی جمع و ترتیب اور غیر ممالک سے آنے والے سفراء کا دار الضیافت بھی عموماً مسجدیں ہی ہوتی تھیں ۔
(سیرت العمرؓ ابن جوزیؒ بحوالہ: الفاروق حصہ دوم صیغہ مذہبی)
✍️ : محمد اسجد رشیدی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں