تازہ ترین

پیر، 27 نومبر، 2023

ترقی کے دور میں بچوں کے کھیل بھی ہائی ٹیک ہوتے ہوئے

ترقی کے دور میں بچوں کے کھیل بھی ہائی ٹیک ہوتے ہوئے
جدیدیت نے گائوں کو شہری چپن میں تبدیل کردیا ہے 
مٹی اور لکڑی کے کھلونے بازاروں سے غائب 

پردھانی  سے لے کر پر دھان منتری کے انتخاب تک سب کچھ تبدیل ہوچکاہے،بجلی سے گائوں تو ضرور روشن ہوگیا مگرجدیدیت نے گائوں کو شہر ی چلن میں تبدیل کر دیا ہے، گائوں میں بھی شہری طرز پر دیر رات تک جاگنے اور دیر میں اٹھنے کی عادت اب نوجوانوں میں عام ہو تی جا رہی ہے۔


  جونپور ( حاجی ضیاءالدین)ترقی کے دور میں سب کچھ ہائی ٹیک ہو تا جا رہا ہے گائوں کی گلیوں پگڈنڈیوں ، بچوںکا بچپن ، جوانی ، کھیتی ، کھیل کود بیاہ شادی رسم و رواج کے علاوہ گائوں کی پردھانی کےانتخاب سے لے کر پر دھان منتری تک کا انتخاب سب کچھ ہائی ٹیک ہو تا جا رہا ہے ۔وقت کے ساتھ کھیل ، کھلونے ، اور انتخابی ایشوز بھی ہائی ٹیک ہو تے جارہے ہیں تو وہیں چھوٹے بچوں میں موبائل کی لت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔


دوڑ بھاگ تو دور کی بات ہے ایک گھر یا ایک جگہ بیٹھ کر بچے موبائل دیکھنے وگیم کھیلنے میں اس طرح غرق ہوجاتے ہیں کہ جیسےکسی اور دنیا میں پہنچ چکے ہوں جس کی وجہ سے بینائی کے ساتھ ساتھ دیگر امراض میں وہ مبتلا ہو تے جا رہے ہیں ۔

 چند دہائی قبل تک گائوں میں بچے چور ، وزیر، سپاہی ،کوڑی کو د ، گلی ڈنڈا ، کبڈی، آئس پائس ، گولی ، لکڑ کوچ، تالاب میں تیرنا وغیرہ جیسے کھیلوں کو کھیلتے ہوئے جوانی کی دہلیز تک پہنچتے تھے، دوڑ بھاگ و کثرت کے کھیلوں کی وجہ سے ان کاجسم ودماغ و ترو تازہ رہتا تھا تو وہیں آسائش نہ ہو نے کے باوجود بھی بیماریوں سے دور رہا کر تے تھے ۔ کچھ لوگ گائوں محلہ میں ایسے بھی ہو تے تھے جنھیں بچے کسی خاص نام ، لقب سے پکار کر کے پریشان کیا کر تے تھے جس سے ناراض ہونے کے بعد وہ بچوں کو دوڑایا کر تے تھے جس کی شکایت بھی خوب ہو تی تھی اور والدین کے ذریعہ پٹائی بھی ہو تی تھی لیکن دوسرے دن پھر وہی کھیل۔


 بسا اوقات محلہ سطح پر کھیلوں کے مقابلے ہو تے تھے تو وہیں نانی و دادی بچوں کو کہانیاں سنانے کے علاوہ تیل وغیرہ کی مالش کر کے ان کے جسم اورتمام اعضاء کو حرکت دے کر توانا بنا تی تھیں خاص عمر تک مائیں سر سوں پیس کر کے بچوں کی مالش کیا کر تی تھیں بچوں کے آپسی کھیل کود و دوڑو بھاگ کسی یوگا سے کم نہ تھے ۔

 بڑی بہنیں و عزیز اقارب کم عمر بچوں کی انگلی پکڑ کر ان کو چلنا سکھا تی تھیں ،گھر کی بڑی بوڑھی خواتین ان تمام چیزوں پر باریک نگاہ رکھتی تھیں ۔مٹی کے کھلونوں کے علاہ لکڑی کے کھلونے بازار میں کثرت سے ملا کر تھے اکثر میلہ و عید گاہ پہنچنے والے بچے اپنے والدین سے کھلونوں کی خریدنے کی ضدکیا کر تے تھے۔

 اس وقت بچوں کی پہلی پسند ہاتھی ، گھوڑا ، پالکی ، ڈمرو ، ڈھول ، وغیرہ ہوا کرتی تھی تو وہیں لڑکیوں کی پہلی پسند گڑیاوغیرہ ہو تی تھی بعض بچے چلنے میں یا جسمانی طور پر کمزر ہو تے تھے تو اہل خانہ لکڑی کی تین پہیوں والی گاڑی سے بچوں کو چلنے کے پر کٹکس کرواتے تھے اور جب بچہ چلنا سیکھ جا تا تھا تو پورا دن اسی کے ساتھ گزار دیتا تھا لکڑی کی گاڑی اس قدر مضبوط ہو تی تھی کہ کنبہ کے یکے بعد دیگر پیدا ہو نے والے بچے بھی ایک ہی گاڑی سے پیدل چلنا سیکھ لیا کر تے تھے جسے گھر آکر بڑھئی بنا یا کر تے تھے یا کسی میلے سے خریداجا تا تھا وقت بدلا تو بچوں کے لئے مختلف نوع کے واکر بازاروں میں ملنے لگے ہیں ۔ 


بچوں کے علاوہ بڑوں کے اپنے کام اور اپنی ضروریا ت ہو تی تھیں کسان پورے دن کھیتوں میں کام سے شام کو فارغ ہو نے کے بعدکسی خاص مقام پر پہنچ کر ریڈیو وغیرہ پر خبریں و دیگر پروگرام خاص طور پر حقہ کے کش لگانے کا لطف اٹھاتے تھے ریڈیو پر چاند چاچا انو بھوی کسان و غیرہ کا پروگرام نشر ہو تا تھا۔


 جس میں کھیتی کے طریقے بتائے جا تے تھےگائوں کے لوگ حقہ کی کش اور کھانسنے کے دوران ڈھبری یا لال ٹین کے مختصر اجالے میں کسی تخت یا چار پائی پر بیٹھ کر چاند چاچا کو بھی سنا کر تے تھے اتنا ہی نہیں چند دہائی قبل تک انتخابی موسم میں اکثر سیاسی پارٹیوں کے انتخابی نشان کسانوں سے متعلق جس میں دو بیلوں کی جوڑی ، ہلدھر کسان ، ہنسوا بالی وغیرہ ہو ا کر تے تھے تو وہیں پر دھانی کے الیکشن میںبھی اسی طرح کے انتخابی نشان الاٹ ہو ا کر تے تھے۔


 وقت بدلا تو سب کچھ بدل گیا کسانوں کی باتیں تو ہو تی ہیں لیکن انتخابی نشان میں کسانوں کی جگہ کچھ اورچیزوں نے لے لی ہے،شادی بیاہ ودیگر مواقع پر مہذب گائوں کی جگہ اکثر پھوہڑ گانے بجنے لگے ہیں جس کے سبب شادی بیاہ میں ڈانس کر نے کو لے کر ما ر پیٹ کے واقعات بھی رو نماہو رہے ہیں۔


  بجلی پہنچی تو گائوں ضرور روشن ہوگیا مگر جدیدیت نے گائوں کو شہر ی چلن میں تبدیل کر دیا ہے گائوں میں بھی شہری طرز پر دیر رات تک جاگنے اور دیر میں اٹھنے کی عادت نوجوانوں میں عام ہو تی جا رہی ہے گائوں کے بچوں کے جہاں کھیل ہائی ٹیک ہو تے جا رہے ہیں تو وہیں رہن سہن بھی غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔


 اس ضمن میں ڈاکٹر ایم ایس خان کا ماننا ہےکہ جسمانی محنت و کھلی آب وہو ا اور دھوپ نہ ملنے سےبچے کمزور ہو تے جارہےہیں اورکثرت سے موبائل کے استعمال سے بچوں کی بینائی متائثر توہوتی ہی ہے جسم بھی کمزورہوتے جارہے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad