تازہ ترین

بدھ، 22 نومبر، 2023

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ڈاکٹر محمود عاصم کی مصر سے شائع دو کتابوں کا رسم اجراء

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ڈاکٹر محمود عاصم  کی مصر سے شائع دو کتابوں کا رسم اجراء 

پریس ریلیز (نئی دہلی)   جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے مرکز برائے عربی مطالعات  کے زیر اہتمام  مختلف زمانوں میں عربی ادب کی  اصناف   کے عنوان سے دو روزہ  سیمینار  کا افتتاحی اجلاس  منعقد ہوا ۔  اس  افتتاحی اجلاس  کی صدارت  اسکول آف لینگوجز  کی ڈین  پروفیسر  شوبھا نے کیا جبکہ  مہمان خصوصی کے طور پر عرب لیگ مشن میں  وزیر مفوض کے عہدے  پر فائز ڈاکٹر مازن المسعودی، پروفیسر زبیر احمد فاروقی اور پروفیسر نعمان خان اس اجلاس کی زینت رہے۔


افتتاحی خطاب میں پروفیسر شوبھا نے عربی زبان و ادب اور فرانسیسی زبان و ادب پر ایک دوسرے کے اثرات پر گفتگو کی جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹر مازن نے عرب و ہند کے تعلقات کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب میں ہندوستانیوں کی بیش قیمت خدمات کو سراہا۔ پروفیسر زبیر فاروقی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے مختلف زمانوں میں عربی ادب کی  اصناف   پر سیر حاصل گفتگو کی جبکہ پروفیسر نعمان خان نے اپنے خطاب میں سیمینار کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس کی ستائش کی۔


سیمینار میں  مرکز برائے عربی مطالعات   کے صدر پروفیسر مجیب الرحمان نے مہمانوں کا استقبال کیا اور موضوع کی وسعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تاکہ سبھی ریسرچ اسکالرس کو اس سیمینار میں اپنے مقالات پیش کرنے کا موقع مل سکے۔


سیمینار کے ڈائریکٹر پروفیسر عبید الرحمان طیب نے اس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اس سمینار میں ملک کے مختلف گوشوں اور یونیورسٹیوں سے 93 مقالات پیش کئے جائیں اور سیمینار کی نوعیت آف لائن اور آن لائن دونوں ہوگی۔ 
اس افتتاحی اجلاس میں مہمانوں کے ذریعہ ڈاکٹر محمود عاصم کی  دو کتابیں  جو مصر سے شائع  ہوئی ہیں،  اس کا   رسم اجرا بھی عمل میں آیا ۔ یہ  کتابیں حکومت ہند کی عربی صحافت میں خدمات کے موضوع کا احاطہ کرتی ہیں۔

شعبہ عربی  جواہر لال نہرو یونیورسٹی  میں استاذ کٹر زر نغارنے اس افتتاحی اجلاس میں کنوینر کے فرائض   انجام دئے ، ڈاکٹر اختر عالم نے مہمان خصوصی کا تعارف پیش کیا جبکہ  ڈاکٹر محمد اجمل نے کلمات تشکر پیش کئے۔ 

اس افتتاحی اجلاس میں  جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، کشمیر ، کیرلا اور دیگر یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرس بڑی تعداد میں  آف لائن موجود تھے جبکہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے اساتذہ اور طلبہ آن لائن جڑے ہوئے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad