جونپور: مسلم معاشرہ تعلیم سے آج بھی دور: ڈاکٹر نعمان خان
سینٹ جوزف گروپ آف اسکولز کے چئیرمین و ماہر تعلیمات ڈاکٹر نعمان خان سے اجود قاسمی کی خصوصی گفتگو
ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور ماضی میں علم و ادب کا سینٹر اور مرکز ہوا کرتا تھا جس کا شہرہ پوری دنیا میں تھا اسی بنا پر مغل بادشاہ شاہجہان نے جونپور کو شیراز ہند کے خطاب سے نوازا تھا مگر ماضی کی یہ باتیں اب تواریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں درج ہیں جس پر اہل جونپور کو آج بھی رشک ہے ماضی میں شان و شوکت کا مالک جونپور اب اپنی بے نوری و بے بسی پر ماتم کناں ہیں حال میں چند ایسے افراد ہیں جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے وہ اپنی تعلیمی خدمات کے بنا پر جونپور کو دوبارہ شیراز ہند بنانے کےلئے کوشاں ہیں،
انہیں میں ایک نام سینٹ جوزف گروپ آف اسکولز کے چئیرمن ڈاکٹر نعمان خان ہیں جو جونپور میں چار انگلش میڈیم اسکول چلا رہے ہیں جسمیں ہزاروں کی تعداد میں بچے زیر تعلیم ہیں، ڈاکٹر نعمان خان مشہور و معروف عالم دین و مہتمم ندوت العلماء لکھنؤ مولانا ابو العرفان خان ندوی کے چھوٹے بیٹے ہیں نعمان خان عربی،اردو،انگلش،ہندی زبان کے ماہر ہیں جن کی شناخت جونپور میں ایک ماہر تعلیمات و سماجی کارکن کے طور پر ہے ای ٹی وی بھارت اردو نے نعمان خان سے تعلیم جو لیکر خصوصی گفتگو کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نعمان خان نے کہا کہ میں نے اپنے والد کو دیکھا کیونکہ وہ ندوت العلماء کے مہتمم تھے میرے والد تعلیمی معملات اور مینیجمینٹ کو ایک ساتھ لیکر چلتے تھے مرے اندر فکر وہیں سے پیدا ہوئی اور جب 1988 میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو کچھ لوگوں کو درس دینا شروع کیا مگر میں نے دیکھا کہ مسلم معاشرہ تعلیم سے دور ہے انہیں کتابی جانکاری تو ہے پر وہ عملی طور پر کمزور ہیں تو میں نے متعدد جگہ نوکری کرنے کے بعد خود کا اسکول کھولنے کا خیال آیا جب میں نے پہلا اسکول قائم کیا تو اس کا نام سینٹ جوزف رکھا لوگوں نے اعتراض بھی جتایا میں نے یہ کہا کہ یہ وہ نام ہے جو نبی کے نام منسوب ہے کیونکہ حضرت یوسف کو انگلش میں سینٹ جوزف لکھا جاتا ہے آج وہ مسلم بچے میرے اسکول میں داخل ہوئے ہیں ۔
جن کا رجحان مشینری اسکولوں میں پڑھ کر کرشچنیٹی کی طرف وہ ہو گیا تھا میں نے ان کی ذہن سازی کی ساتھ ہی میں نے ہند و مسلم دونوں کو ساتھ لیکر چلا چنانچہ اپنے اسکول میں میں نے بچوں کو یہ سکھایا کہ مسلم بچے گوڈ مارننگ سے پہلے سلام کریں اور غیر مسلم بچے نمسکار کہیں تاکہ جس سے ان کی تہذیب کا بھی پتہ چلے،
انہوں نے کہا کہ ہاں اس بات کا دکھ ضرور ہےکہ مسلم بچے اردو سے دوری اختیار کر رہے ہیں جبکہ میں نے سی بی ایس سی بورڈ سے انٹر تک اردو لے رکھا ہے مسلم بچوں کے لیے مگر یہ بچوں کی کمی ہے یا والدین کی مصروفیات ہے بلکہ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ غیر مسلم بچے ہمارے اسکول میں اردو سیکھ،پڑھ رہے ہیں مسلم بچے اردو نہیں لیتے اگر لیتے تو ان کا فیصد بھی بڑھ جاتا،
انہوں نے کہا کہ میرے گھر میں ماحول اردو و عربی کا تھا جبکہ مجھے خود یہ دونوں زبانیں آتی ہیں مگر میں نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے انگلش میڈیم اسکول کو قائم کیا اور حکمت عملی سے کیسے کام کرنا ہے یہ مجھے الرحیق المختوم کتاب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے سیکھا۔
نعمان خان نے کہا کہ میرے 6 بھائیوں کی کمی رہی کہ اپنے والد کے لیے کوئی نمایاں کام نہیں کیا کہ جس سے میرے والد کا نام عمومی سطح پر مشہور ہو سکے اور میرے والد بھی سادگی پسند تھے وہ نام و نمود سے گریز کرتے تھے جبکہ ان کے پاس وسائل و ذرائع بہت تھے البتہ اب میں کوشش کر رہا ہوں مالی اعتبار سے کمزور لوگوں کے لیے کوئی ہاسپٹل یا میڈیکل اسٹور کھولا جائے جس سے انہیں مفت دوا مل سکے اور دارالعلوم ندوت العلماء میں کوئی ایسی یادگاری چیز بنائی جائے جس سے ہم لوگوں کو تاعمر اس کا ثواب اور طالب علموں کو فائیدہ ملتا رہے۔
ڈاکٹر نعمان خان نے کہا کہ مسلم معاشرے میں تعلیم کی کمی ہے دوسرے قوموں کے بچے آج بھی آگے ہیں صرف آج وہی بچے آگے بڑھ رہے ہیں جو مالی اعتبار سے کمزور ہے وہی مقابلہ جاتی امتحانات میں شاندار کامیابی حاصل کر رہے ہیں مسلم معاشرہ کھانے،پینے،پہننے اور اونچی اونچی عمارت بنانے میں لگا ہے اس کا دھیان تعلیم کی طرف نہیں ہے،
انہوں نے کہا کہ تعلیمی معیار جونپور کا بہت اہمیت رکھتا ہے اگر جونپور میں تعلیمی معیار میں کمی آئی ہے تو اس میں والدین کی کمی ہے ان کی اصلاح کی ضرورت کے بچوں کی صحیح تربیت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم طبقہ اپنے اوقات کو چائے خانوں اور چٹی چوراہوں پر بیٹھ کر ضائع کر دیتے ہیں باہر آب و ہوا لینا چائیے مگر انہیں اپنے گھر والوں کو وقت دینا چاہیے بچوں کی پرورش و تربیت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے انہوں کہا کہ تنقید کے دائرہ میں ہمیشہ رہا ہوں کچھ بھی کر کو لوگ ہدف تنقید بناتے ہیں آگے چلکر میرا ارادہ ہے کہ ایک بی یو ایم ایس کالج بنایا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں