عمر خالد،شرجیل امام اور ہم سب
ذاکر حسین
بانی: الفلاح فاؤنڈیشن (بلڈ ڈونیٹ گروپ)
ملک کی معروف یونیورسٹی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور مقبول سوشل ایکٹیوسٹ عمر خالد کیلئے سپریم کورٹ سے راحت کی خبر ہے۔سپریم کورٹ نے عمر خالد کے ذریعہ یو اے پی اے کی متعدد دفعات کو چیلنج کرنے کے نوٹس کرنے کو قبول کرتے ہوئے اس معاملے میں مرکز سے جواب طلب کر لیا ہے۔
معاملے کی اگلی سماعت آئندہ 22 نومبر کو گی۔عمر خالد پر شمال مشرقی دہلی میں 2020 کے فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔مذکورہ بالا باتوں کے ذکر کا مقصد یہ ہیکہ عمر خالد،شرجیل امام اور بے شمار ملک کے ہونہار طلباء سی اے اے سمیت متعدد معاملات میں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔لیکن ان طلباء کے حق کیلئے جو آواز بلند ہونی چاہئے تھی،وہ نہیں ہوئی۔
اور شاید اسی وجہ سے انصاف کو انصاف ملنے میں مزید تاخیر ہو رہی ہے۔یہ تلخ حقیقت ہیکہ گزشتہ چار پانچ برس میں جب جب قوم،ملک اور آئین کے تحفظ کی بات آئ تو سب سے پہلے عمر خالد جیسے نوجوان ہی پہلی صف میں کھڑے نظر آئے۔ہمارے ملک کا المیہ ہیکہ اکثر ملک کے ذہین اور کامیاب طلباء ملک کی سیاست کے "تقسیم پالیسی " کے شکار ہوتے ہیں اور انہیں ملک کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کرنے کے بجائے انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔حالانکہ ضرورت اس بات کی ہیکہ ملک کے طلباء خواہ وہ کسی بھی مذہب کسی بھی رنگ و نسل کے ہوں ،اسے وطن عزیز کی حکومتوں کی جانب سے اسپیشل ٹریٹمنٹ ملنا چاہیے ،تاکہ وہ ملک اور سماج کیلئے کچھ مثبت کر سکیں۔
اگر بچوں سے کچھ غلطیاں ہو جائیں تو ان کی ذہن سازی کی جائے نہ کہ انہیں جیل میں ڈال کر ہمیشہ کیلئے ذہنی اور جسمانی طور سے مفلوج بنا دیا جائے۔سچ ہیکہ سی اے اے معاملے میں جے این یو طالب علم شرجیل امام کوئ عام طالب علم نہیں ہیں،وہ ایک عام دماغ نہیں ہے۔شرجیل کے بارے میں کہا جاتا ہیکہ انہوں نے ماہانہ کئ لاکھ روپیوں کی نوکری ٹھکرا کر وطن عزیز کے لئے کچھ مثبت کرنے کی کوششیں کیں لیکن انہیں بھی جیل میں ڈال کر ملک کی ایک بڑی صلاحیت کو قید کر دیا۔
کہا جاتا ہیکہ معروف اردو ویب سائٹ ریختہ بھی شاید شرجیل کی ہی مرہون منت یے۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے،اس کی ہم تصدیق نہیں کرتے۔لیکن شرجیل کی ذہانت اور قابلیت کا ہر کوئ قائل ہے۔شرجیل امام جیل گئے تو سنجیو سراف ہوں یا پھر ملک کے بڑے سیاست دان ،کسی نے بھی شرجیل امام کے معاملے میں ایسا رخ نہیں اختیار کیا،جس سے پتہ چلتا کہ انہیں ایک باصلاحیت اور ذہین دماغ کے ضائع ہونے کی فکر ہو۔سچ ہیکہ شرجیل اور عمر جیسے لوگ ملک اور قوم کے سرمایا ہیں۔
ان کے معاملات کو فیملی تک محدود کرنے کے بجائے پوری قوم اور ملک کے انصاف پسند افراد کو اپنا معاملہ سمجھ کر آگے آنا چاہیے۔لیکن ہمارے سماج بالخصوص ہماری قوم کا المیہ ہیکہ اس طرح کے معاملے میں متاثرین کو ضمانت دار بھی نہیں ملتے۔متاثرہ فیملی سے ان کے اپنے خون کے رشتے ،رشتہ دار تعلق منقطع کرلیتے ہیں۔یہ تعلق تب تک پٹری پر نہیں آتے جب تک متاثرہ شخص جیل اور خطرے سے باہر نہیں آجاتا۔عمر خالد نے جس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا،اسی معاملے میں پنجرہ توڑ گروپ کے نتاشا ناروال،دیو نگانہ کلیتا،آصف اقبال تنہا عدالت کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔
ہم نے اکثر دیکھا ہیکہ قوم پر کوئ آفت آنے پر جو نوجوان لڑکے قوم کیلئے اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں،وہی نوجوان جب پولیس ،آئ بی کے راڈار پر آتے ہیں تو قوم کے ہی افراد انہیں یتیم بنا دیتے ہیں۔جو شخص پوری قوم کیلئے اپنی زندگی داؤ پر لگا دے،اسی شخص کو اپنے مقدمے کی پیروی کے ایک وکیل ڈھونڈھنا ایک ضمانت دار ڈھونڈھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
حالانکہ اس طرح کے نوجوان آپ کے حصے کی لڑائ لڑتے ہیں اور انہیں ہمارے سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔شرجیل امام ہو یا پھر عمر خالد م،دونوں نوجوانوں نے خود کو قوم کیلئے قربان کر دیا اور آج قوم کو شاید ہی ڈھنگ سے ان کے نام بھی یاد ہوں۔اس طرح کے واقعات سے قوم کے نوجوانوں کا حوصلہ ٹوٹتا ہے اور خدشہ تو یہ ہیکہ کچھ دنوں بعد قوم کے مسائل پر سڑکوں پر اترنے والے نوجوان شاید ہی نظر نہ آئیں۔
آئیے ہم سب مل کر عمر خالد،شرجیل امام،نتاشا ناروال اور آصف اقبال تنہا جیسے طلباء کی بازیابی کیلئے دعا اور کوشش کریں۔انہیں ایک ضمانت دار کی ضرورت ہو تو پوری قوم پورا سماج ان کا ضمانت دار بن کر کھڑا ہو جائے۔انہیں اپنے مقدمے کی پیروی کیلئے ایک وکیل کی ضرورت ہو تو پوری قوم پورا سماج ان کا وکیل بن کر ان کیلئے کھڑا ہو جائے۔انہیں اپنے مقدمے کی پیروی کیلئے پیسوں کی ضرورت ہو تو پوری قوم خود کی جمع پونجی ان کیلئے وقف کرنے کی جرائت دکھائے۔تب جاکر قوم کے نوجوانوں میں قوم کی لڑائ کا حوصلہ ہوگا اور قوم کبھی یتیم نہیں ہوگی۔ان شاء اللہ۔
آخیر میں عمر خالد اور شرجیل امام سمیت دیگر متاثرین کیلئے بس اتنا کہنا چاہیں گے آپ لوگ حوصلہ مت ہاریئے گا،بہت جلد اندھیری راتوں کی سیاہی چھٹے گی اور اجالا ہوگا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں