مولانا لیاقت علی قاسمی اُن کی تعلیمی اور رفاہی خدمات
عبد الحلیم قاسمی دنیا بھر میں مختلف مذاہب اور عقائد موجود ہیں لیکن کائنات کے رب کا آفاقی پیغام انسانیت، محبت اور امن کے علاوہ کچھ بھی نہیں چنانچہ جس انسان میں عجز و انکساری، احترامِ انسانیت ہو اور وہ عدم تشدد و بھائی چارے پر یقین رکھتا ہو تو وہ رحم دل اور متقی بھی ہوگا اور وہی انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ترین بندوں میں سے ہوتا ہے، یہی وہ بنیادی فرق ہے جو جانور اور اشرف المخلوقات میں نمایاں ہے۔ موجودہ وقت میں مولانا لیاقت علی قاسمی جمعیۃ علماء ساوتھ زون بمبئی مہاراشٹر کے جنرل سکریٹری بھی ہیں، مولانا لیاقت علی قاسمی صاحب نے اپنی رفاہی سرگرمیوں کا آغاز غالبا بیس سال پہلے ہی سے کیا تھا،
بہت سارے مدارس اور مساجد، یتیم غریب ان کی توجہ سے چلتے ہیں، اور آج انسانی خدمت کا یہ سفر ہندوستانی اضلاع میں پھیل چکا ہے جن میں اترپردیش بہار، راجستھان، کلکتہ، بمبئی، مدھپردیش ، اڑیسہ، جھارکھنڈ کے علاوہ ہندوستان کے کئی صوبہ بھی شامل ہیں۔
لیکن ہر دور کے معاشرے میں ایسے افراد خواہ خال خال ہی کیوں نہ ہوں لیکن اُن کی خدمات ضرور موجود ہیں جنہیں نام کی پروا ہوتی ہے نہ صلے کی تمنا چنانچہ میری دانست میں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمیت اور فضیلت معاشرے کا آئینہ ہوتی ہے‘‘ تو پھر اس ’’آئینے‘‘ میں مولانا لیاقت علی قاسمی صاحب جیسے انسانیت کے سفیروں کے رفاہی کاموں کو بھی سامنے لایا جائے بلکہ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کی خدمات کو سراہا جائے تاکہ معاشرے کے دیگر افراد بھی متاثر ہو کر ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی خدمت کریں کیونکہ انسانی سماج میں جس قدر اس قسم کے رجحانات پنپتے ہیں.
اسی قدر حکومتوں کا بوجھ بھی کم ہوتا ہےلہٰذا پوری دُنیا میں رفاہی تنظیمیں بڑی حد تک حکومتوں کا بوجھ بانٹنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
خیال رہے کہ ’مولانا عبید الرحمن صاحب فلاحی اور میں خود‘ ان کے کئی ایک رفاہی منصوبوں کا چشم دید گواہ ہیں، اس لیے پوری ذمہ داری سے تحریر کرسکتا ہوں کہ مولانا لیاقت علی قاسمی صاحب ان کا انسانیت کے لیے بیسیوں منصوبوں پر کام جاری ہے اور یہ متحرک نیٹ ورک رنگ و نسل، مذہب و علاقہ اور فرقوں کی تقسیم سے بالاتر ہو کر خلقِ خدا کی خدمت کر رہا ہے۔
کچھ انسان تاریخ کے حصہ ہوتے ہیں اور کچھ خدمات ان کے لیے مقدر ہیں، انھیں انجام دے کر تاریخ کے خاکستر میں دب جاتے ہیں، اور کچھ اللہ کی طرف سے تاریخ ساز بن جاتے ہیں، جو صرف پھل نہیں دیتے؛ بلکہ ان درختوں کو بھی جنم دیتے ہیں، جن سے پھل پیدا ہوں، جو صرف پھول نہیں دیتے؛ بلکہ ایک پھلواری کو وجود میں لاتے ہیں، جو صرف روشنی نہیں دیتے؛ بلکہ ایسے چراغ وجود میں لاتے ہیں، جن کی لَو سے ہزاروں چراغ جلائے جاتے ہیں، ایسے ہی اشخاص میں نام حضرت مولانا لیاقت علی قاسمی صاحب کا بھی آتا ہے
ضرورت مند لوگوں کو خاص طور سے علماء کرام کا کم سے کم پیسہ میں آپریشن کیے گئے اور رمضان میں مدارس کے سفیر کیلئے افطار کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہ سب اللہ کی رضا، احساس و جذبہ انسانیت کے پیش نظر کیا جا رہا ہے۔
بلکہ یہاں پر آنے والے ہر شخص کو خوش آمدید کہا جاتا ہے یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ مریض کی انا کو ٹھیس نہ پہنچے جو پہلے ہی غربت و افلاس کا ستایا ہوا ہوتا ہے۔ ازیں ونٹر پروجیکٹ، حفاظ، کلین واٹر، قربانی پروجیکٹ اور اجتماعی شادیوں کے پروجیکٹ سمیت مظلوم مسلمانوں کیلئے امداد سمیت انسانی فلاح کےکئی دیگر منصوبے مولانا لیاقت علی قاسمی کی سربراہی میں چلائے جا رہے ہیں۔ یقیناً معاشرے کا ایسا فرد جو کسی لالچ یا مالی مفاد کے بغیر دوسرے لوگوں کی مدد کرے وہ انسانیت کا سفیر کہلوائے جانے کا مستحق ہوتا ہے۔
آج کے اس مادی دور اور بےمحابہ معاشرتی برائیوں کی موجودگی میں ایسا کوئی انسان جو ان قباحتوں سے مُبرا ہو تو اسے بلند مقام ضرور ملنا چاہیے اور وہ داد و تحسین کا حقدار بھی ہوتا ہے۔
انسانیت ہی دُنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے اور ادیانِ سماویہ میں دین اسلام کو عظمتِ انسانیت کا علم بردار اور کامل نمونہ مانا جاتا ہے اور اگر اسلام احترام انسانیت، شرف آدمیت اور بزرگی کا دین ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو کائنات ہست و بود میں اپنا نائب و خلیفہ بنایا ہے تو یقیناً اس کے اندر اپنی صفات کے مظاہر کی خیرات بھی تو رکھی ہوگی جس کی بدولت انسان کے اندر ہمدردی، رحمدلی، اخلاقِ حسنہ اور اعلیٰ اوصاف یکجا ہوتی ہیں، چنانچہ مولانا لیاقت علی قاسمی جیسے انسان شاید انہی اوصاف پر پورا اُترنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں