تازہ ترین

اتوار، 15 اکتوبر، 2023

راستے بند ہیں سب کوچہ قاتل کے سوا...

راستے بند ہیں سب کوچہ قاتل کے سوا...
ودود ساجد

یہ وقت صرف اہل فلسطین پر ہی بھاری نہیں ہے۔ یہ وقت براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس قضیہ سے وابستہ ہر فریق پر بھاری ہے۔۔


 فلسطین کے مظلوم‘ نصف صدی سے زائد عرصہ سے جس قیامت کا مشاہدہ کرتے آرہے ہیں آج بھی وہی قیامت ان کے سامنے ہے۔ آج  اسرائیل جو کچھ اعلانیہ کر رہا ہے وہ ہر روز بغیر اعلان کے ایک مدت سے کرتا آرہا ہے۔ 


محصور فلسطینیوں کیلئے زندگی بھی موت سے کم نہیں ہے۔ فلسطینی عوام دن رات زندگی کی بجائے موت ہی جیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں نے موت کو ہی اسرائیل کے مظالم سے ’نجات‘ تسلیم کر لیا ہے۔ 


دنیا کے بڑے ممالک اسرائیل کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے ہیں۔جنگوں کے سردار امریکہ اور ناجائز قبضوں کی تاریخ کے سرغنہ برطانیہ نے تو اس کیلئے جنگی کمک بھی بھیج دی ہے۔ لیکن جن ممالک نے اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کیا ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کے قریب آکر پھٹک بھی نہیں سکتے۔ حماس کی کارروائی کی کوئی تائید نہیں کررہا ہے۔ لیکن جن ایک دوملکوں نے براہ راست یا بالواسطہ حماس کی حمایت کی بھی ہے وہ بھی اب فلسطین کے نہتے عوام کی کوئی ظاہری مدد کرنے سے قاصر ہیں۔۔۔


دور حاضر کے حوالہ سےاس قضیہ کے کئی پہلو ہیں لیکن حماس کی انتہائی غیر متوقع کارروائی نے بیشتر پہلوئوں کو منظر نامہ سے غائب کردیا ہے۔ مظلوموں کے احوال کے تناظر میں حماس کی کارروائی سے مظلوموں کا ہی نقصان ہوا ہے۔ مختلف ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب کی ان کوششوں کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے جن کے تحت وہ مسئلہ فلسطین کے کسی پائیدار‘ باعزت اور قابل قبول حل کی تلاش میں سرگرداں تھا۔


 لیکن یہ بھی درست ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کی کارروائی سے اسرائیل کو جو ہمہ جہت نقصان پہنچا ہے وہ عدیم المثال ہے۔ اس نقصان کے ردعمل میں اسرائیل اہل غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے پرآمادہ ہے۔ اس نے ایسا کرنے کی تمام تیاریاں کر بھی لی ہیں۔ اس کی تیاریوں کو روکنے کی بظاہر کسی فریق میں ہمت بھی نہیں ہے۔ وہ 7 اکتوبر سے مسلسل حملے کر رہا ہے۔ وہ غزہ نامی گھنی انسانی بستی کو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں بھی تبدیل کرسکتا ہے۔ 


وہ دنیا کی اس سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کے قیدیوں کی روحوں کو ہمیشہ کیلئے آزاد بھی کرسکتا ہے۔ لیکن اندرون اسرائیل اس نے حماس کے ہاتھوں جو ذلت آمیز سیاسی ‘انسانی‘ عسکری اور معاشی نقصان اٹھایا ہے اس کی تلافی وہ قیامت تک نہیں کرسکتا۔۔۔

یہ خبریں تو آپ تفصیل کے ساتھ پڑھ ہی چکے ہوں گے کہ گزشتہ 7 اکتوبر کو علی الصباح‘ فلسطین کے محصور علاقہ غزہ سے شمالی اسرائیل کے قریب ترین 20 علاقوں میں فضا اور بحر و بر سے داخل ہوکر حماس کے مسلح گروہ ’کتائب القسام‘ نے چوطرفہ حملہ کرکے تباہی مچادی تھی۔ ہزاروں کو زخمی اور 1300اسرائیلیوں کے قتل کے علاوہ ‘وہ 130 اسرائیلیوں کو یرغمال بناکر اپنے ساتھ بھی لے گئے۔


 چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسرائیل کے شدید ری ایکشن اور اس کی دفاعی قوت اور منصوبہ سازی کو دیکھتے ہوئے حماس کا یہ حملہ عقل سے ماوراء معلوم ہوتا ہے۔ مذکورہ علاقوں میں اسرائیل نے دوسرے ملکوں سے آکر بس جانے والوں کو آباد کر رکھا ہے۔انہی کو نوآباد کار کہا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر بیت المقدس کے آس پاس فلسطینی عوام کے ساتھ ان کے لڑنے جھگڑنے کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ جن لوگوں نے فلسطین کے موجودہ بگڑے ہوئے جغرافیہ کا مشاہدہ نہیں کیا ہے ان کی سہولت کیلئے یہ بتانا ضروری ہے کہ جس طرح دائیں بائیں آبادیوں کے درمیان سے کوئی نہر گزرتی ہے اسرائیل نے فلسطین کو اسی طرح بانٹ کر درمیان میں خود کو مستحکم کرلیا ہے۔ میلوں تک دونوں طرف انتہائی اونچی خاردار دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں۔


 اسرائیل کے دائیں فلسطین کا وہ حصہ ہے جسے مغربی کنارہ کہا جاتا ہے اور اس پر الفتح گروپ کی حکومت ہے۔ اقوام متحدہ میں اسی گروپ کو فلسطینیوں کے نمائندہ گروہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اسرائیل کے بائیں جانب فلسطین کا جو حصہ ہے اسے غزہ پٹی کہا جاتا ہے۔ اس علاقہ پر حماس گروپ کی منتخبہ حکومت ہے۔ اس حکومت کو اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ نے حماس کو دہشت گرد گروپ بھی ڈکلیر نہیں کیا ہے۔


 365 مربع کلو میٹر پر مشتمل غزہ میں 23 لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ جبکہ 22 ہزار 145 مربع کلومیٹر پر مشتمل اسرائیل میں  93 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے اہل غزہ کو ہر طرف سے دباکر کس قدر گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں فی 100مربع میٹر میں 42 لوگ آباد ہیں جبکہ غزہ میں فی 100مربع  میٹر میں 500 لوگ  رہتے ہیں۔العربیہ چینل نے بتایا ہے کہ اب غزہ میں فی 100مربع میٹر کے مکینوں کی تعداد بڑھ کر997 ہوگئی ہے۔


یہ موقع فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ بیان کرنے کا نہیں ہے لیکن نئی نسلوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسرائیل کا ایک ایک انچ ‘ سرزمین فلسطین پر آباد ہے۔


 اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کو گھریلو محاذ پر ایک عرصہ سے سخت مخالفتوں کا سامنا ہے۔ بدعنوانی کے کئی معاملات میں انہیں قصور وار پایا گیا ہے۔  سپریم کورٹ میں ان کی سزائوں پر غور ہو رہاہے۔ ان کے مخالفین کا الزام ہے کہ انہوں نے ’عدالتی اصلاحات‘ کے بہانے سپریم کورٹ کے اختیارات پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں کے خلاف ملک بھر میں ان کے خلاف مظاہرے ہور ہے تھے۔ بہت سے ریزرو فوجیوں نے بھی ’لازمی‘ خدمات بجالانے سے انکار کردیا تھا۔ 


اسرائیل سے شائع ہونے والے اخبارات کی متعدد رپورٹوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نتن یاہو کے اسرائیل کے صدر سے بھی اب اچھے مراسم نہیں رہے ۔ شمالی اسرائیل کی بستیوں پر 7 اکتوبر کے حملہ کے بعد ہرچند کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کو سیاسی آکسیجن مل گیا ہے لیکن اندرون اسرائیل ان کی سخت مخالفت ہورہی ہے۔ ان کے خلاف مضامین لکھے جارہے ہیں۔ اسرائیل کے اخبارات ’ہارٹز‘ ٹائمز آف اسرائیل اور اہرنوط وغیرہ اپنے اداریوں میں نہ صرف ان پر بلکہ ملٹری قیادت اور انٹلی جنس ایجنسیوں پر سوال اٹھارہے ہیں۔ ہارٹز اخبار نے تو‘ جسے ہندوستان میں بعض قلم کار ’حارث‘ بھی لکھتے ہیں‘ ناقابل یقین حد تک نتن یاہو حکومت کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ یہ اخبار عبرانی‘ عربی اور انگریزی زبان میں شائع ہوتا ہے۔ یہ بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے یہودی گروپ کا اخبار ہے۔۔۔
 

اسرائیل کے اخبارات کے ذریعہ زیادہ تر اسرائیلی قلم کاروں نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اسرائیلی انٹلی جنس کی ناکامی پر بھی سخت تبصرے کئے ہیں۔ واضح رہے کہ شمالی اسرائیل کے علاقہ عسقلان (جسے اسرائیلی اشکیلون لکھتے ہیں) میں ہی غزہ سے مسلسل راکٹ کے واقعات کے پیش نظر 5 اگست 2011 کو اسرائیل کی ڈیفنس فورسز نے ’آئرن ڈوم‘ نامی ایک میزائل کش سسٹم نصب کیا تھا۔


 اب اسرائیل کے پاس ایسے 10سسٹم  ہیں۔ ہرسسٹم میں دشمن کے میزائل یا راکٹ کو فضامیں ہی پکڑ کر ناکام کردینے کی صلاحیت والے 60 اور 80 میزائل نصب ہوتے ہیں۔ ایک میزائل کی قیمت 60 ہزار امریکی ڈالر بتائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سسٹم بہت موثر‘ متحرک اور پائیدار ہے۔ اس سسٹم نے حماس جیسی تنظیموں کے سینکڑوں حملوں اور ہزاروں راکٹوں کو نقصان پہنچانے سے پہلے ناکام بنایا ہے۔ لیکن 7 اکتوبر کویہ سسٹم حیرت انگیز طور پر ناکام رہا۔ ہارٹز سمیت اسرائیل کے مختلف اخبارات اسی پر سوال اٹھا رہے ہیں اور اس تباہی کیلئے نتن یاہو کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔


اسرائیل کے سینئر صحافی گیڈیون لیوی نے (جو خود یہودی ہیں) وہاں کے اخبار ہارٹز میں کئی سخت مضامین لکھے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ دنیا یہ بھول رہی ہے کہ اسرائیل نے پچھلے 17برس سے غزہ کے 23 لاکھ  انسانوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کو پاگل پن قرار دیا ہے۔ ایک دوسرے صحافی نے اسرائیل کے وزیر اعظم کو پاگل اور سنکی تک لکھ دیا ہے۔


 لندن میں مقیم تورات کے ایک مشہور عالم اور یہودی ربائی‘ ڈیوڈ وائیز نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امن کے قیام کیلئے اسرائیل کا خاتمہ ضروری ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے قیام کو تورات کی شرعی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے۔ ہارٹز کی عربی اور انگریزی اشاعتوں میں ایک اور مضمون کا عنوان ہے :  عودہ بشارات‘ عقل کہتی ہے ہاں‘دل کہتا ہے نا۔ کئی دیگر صحافیوں نے کھل کر لکھا ہے کہ غزہ کی تباہی ‘آخر کار اسرائیل کی بربادی پر منتج ہوگی۔


مختلف رپورٹوں کے مطابق 2018 میں اسرائیل نے دفاع پر 20.34 بلین ڈالر خرچ کئے تھے جبکہ 2021 تک ہر سال بڑھتے بڑھتے یہ بجٹ 24.34 بلین ڈالر ہوگیا تھا۔ اسرائیل کی مستقل فوج پونے دو لاکھ کے قریب ہے جبکہ ریزرو فوج چار لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ اسرائیل کی انٹلی جنس دنیا کی بہترین جاسوسی فورس مانی جاتی ہے۔ اس سے دوسرے ممالک بھی انٹلی جنس کے نسخے حاصل کرتے ہیں۔ لیکن 7 اکتوبر کے واقعہ نے اسرائیل کے یہ تمام امتیازات ڈھیر کردئے ہیں۔

 حماس کے ان حملوں کا انتقام لینے کیلئے اسرائیل ‘ غزہ کے نہتے اور بے قصور عوام پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ اسے عالمی جنگی قوانین یاد دلارہا ہے لیکن اسرائیل کسی قانون کو تسلیم نہیں کر رہا ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع دونوں اسرائیل میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔

 بلنکن کہہ رہا ہے کہ میں یہاں صرف وزیر خارجہ کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ایک یہودی کی حیثیت سے بھی آیا ہوں۔ ادھر ایران‘ عراق‘ ترکی ’اردن‘ قطر اور سعودی عرب باہم گفتگو کر رہے ہیں۔ ان سطور میں عرب ممالک کے رویہ کا جائزہ لینا مقصود نہیں تاہم اتنا سمجھنا ضروری ہے کہ کوئی ملک فی الحال اس جنگ میں خود کو نہیں جھونک سکتا۔ اقوام متحدہ  کے سیکریٹری جنرل‘اسرائیل کو انسانی احترام کا سبق پڑھارہے ہیں‘ لیکن نتن یاہو کہہ رہا ہے کہ میں مشرق وسطی کا نقشہ بدل دوں گا۔۔۔

 اس وقت بھی جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں غزہ پر اسرائیل کے حملے لگاتار جاری ہیں‘ لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کیلئے کہہ دیا گیا ہے‘ الجزیرہ کی خاتون صحافی نجوان نے کہا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر صحافیوں کے گروپ پر حملہ کیا ہے‘ ان میں سے روئٹر کا ایک صحافی شہید ہوگیا ہے۔ 

اسرائیل جس قسم کے انسانوں پر بم برسا رہا ہے اس کی ایک معمولی سی جھلک الجزیرہ پر دکھائے جانے والے اس منظر میں ملتی ہے:


 ایک لاری میں دو جنازے رکھے ہوئےہیں‘ مزید تین جنازے چڑھائے جارہے ہیں‘ لاری میں پیچھے کی طرف گھر کا سربراہ اپنے بچہ کا کفن پوش جنازہ ہاتھوں میں لئے بیٹھاہے۔ اس کے معصوم بچہ سمیت اس کے گھر کی تمام پانچ عورتیں حملہ میں شہید ہوگئی ہیں۔ ان تمام جنازوں کے کفن کا کپڑا غیر معمولی طور پر سفید ہے‘ اگر کمال احتیاط کے ساتھ اپنا مشاہدہ پیش کیا جائے تو اس سے کم کچھ تجزیہ نہیں ہوسکتا کہ ان تمام شہیدوں کے کفن سے دودھ سے بھی زیادہ سفید روشنی چھن چھن کر باہر آنے کو بے تاب ہے۔


 ہاتھوں میں معصوم بچہ کا جنازہ لئے ہوئے گھر کا سربراہ آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر کہہ رہا ہے کہ یہ الله کی طرف سے ایک معجزہ کے سوا کچھ نہیں کہ بلڈنگ پر حملہ ہوا‘ بلڈنگ تباہ ہوگئی‘ میرے گھر کی عورتیں اور میرا بچہ ملبہ میں دب کر شہید ہوگیا لیکن خدا کی قسم ان شہیدوں کے اجسام پرمعمولی سا غبار تک نہیں تھا۔۔

ایک اور جھلک ملاحظہ کیجئے : غزہ کے ہسپتال کے باہر ایک ایمبولنس آکر رکتی ہے۔ یہ اسرائیل کے تازہ حملہ میں زخمی ایک آٹھ دس سالہ بچے کو لاتی ہے۔اس بچہ کا بایاں ہاتھ بری طرح زخمی ہوا ہے۔ اس کے زخمی ہاتھ پر کپڑا بندھا ہوا ہے۔ ایمبولینس کا دروازہ کھلتا ہے۔ زخمی بچہ اترتے ہی زمین پر سجدہ شکر بجا لاتا ہے۔ 

                      (wadoodsajid@inquilab.com)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad