مسلم اداروں کی بربادی کا سبب خود مسلمان ہیں
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ ایک بار پھر لاقانونیت، من مانی اور کرپشن کی زد میں ہے ، کئی دنوں سے مسلسل ابنائے قدیم اور طلبہ سراپا احتجاج ہیں، مطالبہ بہت سیدھا سادہ ہے کہ ایکٹنگ وائس چانسلر میٹنگ بلائے اور مستقل وی سی کا پینل بنا کر وزیٹر کو بھیجے ، لیکن وائس چانسلر کسی کے اشارے پر کسی اور کی منشا پوری کر رہے ہیں،
یونیورسٹی کو سابق وی سی طارق منصور چلا رہے ہیں، بغیر انتخاب کے اگر اس وائس چانسلر نے ٹرم پورا کر لیا تو وہ کام بڑی آسانی سے ہو سکے گا جو بظاہر ہدف معلوم ہوتا ہے، بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ وی سی کو 24 تک وقت کاٹنے کی تاکید کی گئی ہے ، بھاجپا اگر لوٹتی ہے تو پھر اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی اور انتخاب کے بجائے من پسند وی سی مسلط کیا جائے گا ۔
اے ایم یو کی ناموس پر متعدد بار ڈاکے ڈالے گئے ، کبھی اپنے حملہ آور ہوئے کبھی غیروں نے لوٹا، موجودہ حملہ نہایت خطرناک ہے ، اور سچ کہوں تو یونیورسٹی کو سب سے زیادہ ان لوگوں نے چوسا، لوٹا اور نقصان پہنچایا جنھوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا، یہیں پیدا ہوئے، پلے بڑھے ، پڑھا پڑھایا ، کمایا کھایا اور گھر خاندان کا انتظام کیا مگر مجال ہے جو ایک پیسے کا فائدہ پہنچایا ہو ، بوند بوند وصول کیا ، طارق منصور کو ہی لیجیے تو کم از کم تین نسلیں اسی یونیورسٹی کی مرہون منت ہیں۔ یونیورسٹی سے روزگار پانے والوں ، شہرت اور دولت پانے والوں کی ایک بڑی تعداد مصلحت پسند، منصب و اقتدار پرست اور مطلب کی دلدادہ ہوتی ہے، حق سے گریزاں، جھوٹ اور ظلم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ،
وائس چانسلر کے انتخاب کے وقت ملت کے یہ نمائندے اور اسٹیج کے دانشور صرف اپنے مفادات دیکھتے ہیں، لوبنگ ہوتی ہے ، سودے بازی ہوتی ہے پھر ماتم کرتے ہیں کہ فلاں وائس چانسلر تو ملت کے اس ادارے کو لوٹ رہا ہے ، سوال بہت آسان ہے کہ اس لٹیرے کا انتخاب کن نکموں نے کیا ؟
مجرم تو در حقیقت وہ ہیں۔ آج بھی دیکھ لیجیے کھلی ہوئی لا قانونیت ہے، یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کے کھلے اشارے ہیں لیکن مجال ہے کہ لوگ کھل کر مخالفت کریں، علیگڑھ میں وائس چانسلر کو خدا نہیں تو ناخدا سے کم کوئی نہیں سمجھتا ، ایسی ذہنی غلامی شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے، مدرسے اور دارالعلوم تو صرف بدنام ہیں ۔ سارے چیخ پکار کرنے والوں کے گلے خشک ہو جاتے ہیں، اگر اپنے مفادات پر زد نہ پڑے تو کوئی اف نہیں کرتا ، سب اپنے اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے ہیں ۔
یہ صرف اس ادارے کی بات نہیں، ملت کا ہر ادارہ اپنوں کی جفاؤں سے کراہ رہا ہے ، دنیا میں سب سے زیادہ اوقاف بھارتی مسلمانوں کے پاس ہیں، ذرا کوئی جیالا سروے کرے تو حقیقت سامنے آئے گی کہ کتنے اوقاف ہیں، ان کی آمدنی کتنی ہونی چاہیے اور کتنی ہے ، جو ہے وہ خرچ کہاں ہوتی ہے ، کن لوگوں نے قبضے کر رکھے ہیں، کن کی مہربانیوں سے غیروں نے اوقاف کو ہڑپ کیا ہے ، خود یونیورسٹی کی کتنی پراپرٹی میں اس سے پیٹ پالنے والوں نے خرد برد کی ، ظالم ایک بار بھی سوچتے نہیں کہ وقف کرنے والے مسلمانوں نے آنکھوں میں کیا خواب سجا کر اپنی جائیدادیں وقف کی ہوں گی ،
یونیورسٹی کو زمینیں دیں، پیسہ پیسہ جوڑ کے ادارہ کھڑا کیا ، پیٹ کاٹا قربانیاں دیں اور آج اس کے وابستگان دینے کے بجائے صرف لینا جانتے ہیں، کھانا جانتے ہیں خواہ ناجائز طریقے ہی اپنانا پڑے ، اقتدار پرستی میں اچھے خاصے دیندار نظر آنے والے بھی آخرت کی وعیدیں بھول جاتے ہیں۔ اس پر بس نہیں کرتے بلکہ آگے بڑھ کر اسکی تباہی کا سبب بنتے ہیں اور بربادی پر خاموش تماشائی بن جاتے ہیں،
ذرا سروے کیجیے کہ ہمارے اسلاف نے کتنے اسلامیہ کالج، مسلم کالج، تعلیم کا فیض عام کرنے والے کالج بنائے اور ان کے لیے زمینیں وقف کیں، آج ہر ضلع اور ہر صوبے میں مسلمانوں کے ایسے کالج منتطمہ کے کرپشن ، خاندانی اجارہ داری اور منیجمنٹ کی چپقلش کے سبب تباہ ہیں، عمارتیں بے رونق ہیں، اسامیاں خالی ہیں اور اسلاف کی روحیں تڑپ رہی ہیں لیکن پیٹ کے پجاری نا اہل اور قبضہ مافیا بے حس ہو چکے ہیں،
ہاں ملت کی حالت زار پر آنسو بہانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ہر اسٹیج ان ڈھونگیوں کے آنسوؤں کا گواہ بنتا ہے ۔ بہر حال بات کہیں سے کہیں نکل گئی ، مادر درسگاہ اس وقت سنگین خطرے سے دو چار ہے، کچھ طلبہ ، کچھ اساتذہ اور اولڈ بوائز احتجاج کر رہے ہیں، کیا خوب ہوتا کہ تمام اساتذہ اور تمام ای سی اور کورٹ ممبران اپنا ملی فریضہ سمجھتے ہوئے وائس چانسلر کو پروسیس پر عمل کرنے کے لیے مجبور کرتے ،
واقعہ یہ ہے کہ جب بھی کسی وی سی کو احساس ہو جاتا ہے کہ ٹیچنگ اسٹاف کی اکثریت مخالف ہو گئی ہے وہ خود گوشہ عافیت تلاش کر لیتا ہے لیکن جب تک اسے لوگوں کی وفاداری کا یقین رہتا ہے وہ کمال ڈھٹائی کے ساتھ بے غیرتی کے محاذ پر ڈٹا رہتا ہے۔ یوں بھی اس وقت پوری بھاجپا حکومت پس پردہ اپنے مسلم ایجنٹوں کی پشت پناہی کر رہی ہے ۔
✍️ڈاکٹر طارق ایوبی
سابق طالب علم
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ
#amu #SaveAMU
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں