تازہ ترین

اتوار، 10 ستمبر، 2023

موجودہ حالات اور ملت کا لائحہ عمل

 ڈاکٹر سراج الدین ندوی چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور


آج ملک و ملت کے حالات بظاہر بہت پر آشوب اور ناگفتہ بہ ہیں۔قائدین ڈور سلجھانے کی کوشش کررہے ہیں مگر ڈور ہے کہ مزید الجھتی جارہی ہے۔ملت کے سامنے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ایک جسم ہے اور ہزار آزار ہیں۔ان حالات کو صحیح رخ دینے،مسائل کوحل کرنے اور ملت کے مستقبل کوبے خطر بلکہ تابناک بنانے کے لیے دانشوران قوم غور و فکر کررہے ہیں۔بہت سی تجاویز سامنے ٓ رہی ہیں۔بعض تجاویز وقتی اور عارضی ہیں،بعض تجاویز سیاسی پس منظر میں دی جا رہی ہیں،بعض تجاویز مغرب زدہ ہیں،بعض تجاویز صرف معاشی پس منظر میں پیش کی جارہی ہیں۔ان میں کچھ تجاویز بہت نتیجہ خیز اور ثمر آور ہوسکتی ہیں۔اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔کتابچے بھی شائع کیے گئے ہیں اور مختلف اخبارات و رسائل میں مضامین،مکالمے اور مراسلے بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔

میرے نزدیک پہلی ترجیح یہ ہے کہ ہرمسلمان اپنے مقام و منصب کو پہچانے اور اپنے مقصد تخلیق کا شعور حاصل کرے۔اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا اپنے پیدا کرنے والے سے اور مخلوق سے کیا تعلق ہے؟ زندگی کے ہر معاملہ میں اس کا ویژن کلیر ہو۔نصب العین واضح ہو۔جب تک مسلمانوں کو  اپنے مقصد وجود کا شعورنہ ہوگا،ان پر منزل واضح نہ ہوگی، ان کی سمت سفر ٹھیک نہیں ہوگی۔اگر ویژن  اور منزل صاف ہوگی تو راستا بھی آسان ہوجائے گا اور ہر شخص جب اپنی منزل کی طرف سفر شروع کرے گا تو ایک نہ دن اپنی منزل کو پالے گا۔اس لیے ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو احساس ہونا چاہئے کہ وہ رہنمائی اور رہبری کے بلند مقام پرفائز ہے،اس کے مقصد تخلیق میں یہ بات شامل ہے کہ وہ دنیا میں نیکی کو فروغ دے اور برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اللہ کی ذات پر،اس کی صفات پر کامل یقین ہو۔اگر بندہ مومن کو یہ پختہ یقین ہو کہ تمام معاملات و اختیارات،تمام خزانوں کی کنجیاں صرف اللہ کے دست قدرت میں ہیں۔ہر طرح کا نفع اور نقصان اور زندگی و موت اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں تو پھر انسان کے اندر حوصلہ،شجاعت،بہادری،بے خوفی،ہمت اور جرأت پیدا ہوتی ہے۔پھر اسے اللہ پر یقین اور توکل کی وجہ سے اپنی زندگی کی تمام الجھنوں،دشواریوں،پریشانیوں،کلفتوں اور چیلینجز سے نجات دکھتی ہوئی نظر آتی ہے۔دراصل یہ عقیدہ جسے ہم توحید کہتے ہیں،مجموعی اعتبار سے پوری ملت میں کمزور ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اسے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ملت کبھی یہ سوچتی ہے کہ فلاں پارٹی ہماری مشکلیں حل کرسکتی ہیں،کبھی وہ کسی حضرت یا رہنما کی قیادت سے امیدیں باندھ لیتی ہے،کبھی کسی ابھرتے ہوئے نظریہ کی طرف دوڑ لگاتی ہے،مختلف نظریات اور تصورات اسے گھیر لیتے ہیں۔لیکن اگر اسے یہ یقین ہو کہ اللہ نے اسے جو راہ ہدایت دکھائی ہے اسی میں اس کے جملہ مسائل کا حل ہے،ایک اللہ ہی ہے جو اس کے حالات کو بدل سکتا ہے۔پوری کائنات اور دنیا اس کی دو انگلیوں کے بیچ میں ہے وہ جدھر چاہے پھیر سکتا ہے تو پھر وہ ادھر ادھر کی ٹھوکریں نہیں کھائے گا۔


وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

دوسری بات یہ ہے کہ وحی کا آغاز یا یوں کہیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو جو نظام حیات دیا گیا ہے جسے ہم اسلام کہتے ہیں۔ اس کا آغاز ”اقراء“ سے ہوا ہے۔یہ علم کی روشنی انسان کی گذرگاہوں کو روشن اور منور کرتی ہے،یہ اسے منزل مقصود بھی دکھاتی ہے اور اس کی راہوں سے اندھیروں کو دور کرکے اس کے سامنے منزل کو واضح کردیتی ہے۔مجموعی طور سے ملت اسلامیہ علم سے دور ہوگئی ہے۔علم کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کتاب ہدایت دی ہے اس کا صحیح شعور ہمیں حاصل ہو۔اللہ کے رسول ﷺ جس نظام کو لے کر آئے اس نظام کی خوبیوں اور اس کے محاسن کا ہمیں اچھی طرح ادراک ہو۔اللہ نے اس کائنات میں جو قوتیں پوشیدہ رکھی ہیں اورجو بے پناہ اسرارو رموزہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں ان کی تلاش وجستجو ہو جیسا کہ صحابہ کرامؓ اور ہمارے اسلاف کو تھی،اسی بنا پر وہ آدھی سے زیادہ دنیا پر چھا گئے ہمارے ہی اسلاف نے کتنے اکتشافات اور تحقیقات کیں ان کا اندازہ ان کتابوں کے مطالعہ سے ہوتا ہے جو اس اسلاف نے مختلف سائنسی موضوعات پر تحریر کی ہیں۔پانچ سو سال تک اہل یوروپ ہماری کتابوں سے استفادہ کرتے رہے اور ہماری دانش گاہوں میں ہمارے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے رہے۔آج علم صرف ڈگریاں حاصل کرنے اور اس کے نتیجے میں مناصب اور ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے پڑھاجاتا ہے۔علم اس لیے حاصل کیا جائے کہ یہ ہماری گذرگاہوں کو روشن کرتا ہے،ہمیں منزل تک پہنچاتا ہے،ہمیں ساری انسانیت کے لیے نفع بخش بناتا ہے،آج ہم نے نفع رسانی کا کام چھوڑ دیا ہے۔ہم صرف علم کو معاشی سہولیات کی حصولیابی کے لیے حاصل کرتے ہیں۔ورنہ علم تو پوری انسانیت کو نفع پہنچانے کے لیے حاصل کیا جانا چاہئے۔یعنی اپنی مقصد پیدائش کے ادراک کے لیے،اپنے مقصد وجود کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے۔پھر اس علم کے نتیجے میں جن حقائق کا ہمیں ادراک ہو اس کو عملی جامہ پہنایا جائے۔  ملت کے اندر اس احساس کو پیدا کیا جائے کہ علم وہ ہتھیار ہے جو انسان کو مسائل سے لڑنے او ر فتحیاب ہونے کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔


ایک بڑا مسئلہ دین اور دنیا کی تقسیم کا ہے جو نہ جانے مسلمانوں کے دل و دماغ میں کہاں سے بھر دیا گیا ہے حالانکہ دین تو نام ہی ہے اس دنیا کو اللہ کی مرضی کے مطابق گزارنے کا اور اس دنیا کو حسنہ یعنی کامیاب بنانے کا۔اصل میں قرآن پاک میں دنیا اور آخرت کو ایک دوسرے کی ضد بتایا گیا ہے۔لیکن ہم نے دین کو دنیا کے مقابل لا کھڑا کردیا ہے۔حالانکہ اس دنیا کو دین کے تقاضوں کے مطابق بسر کرنا ہی اسلام ہے۔جب ہم دین کو دنیا سے الگ کریں گے تو ہمارے سامنے مسائل پیدا ہوں گے۔ تو اس غیر اسلامی تصور کو کھرچنے کی ضرورت ہے۔اس محدود و ناقص تصور نے ملت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔یہ تقسیم چاہے علم کے میدان میں ہو یا سیاست کے،تجارت کے میدان میں یا ہو عبادت کے بہت خطرناک ہے۔اس تصور کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔


جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ  جاتی ہے چنگیزی

یوں سمجھے دین دنیا کی اس تقسیم نے تکوین ثروت کو،دولت کے حصول کو ایک معیوب شئے بنادیا ہے۔حالانکہ تکوین ثروت اسلام میں مطلوب و مقصود ہے۔قرآن نے حکم دیا ہے: ”جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔“ (الجمعہ،آیت 10)اللہ کا فضل حلال رزق بھی ہے،اللہ کا فضل تکوین ثروت بھی ہے،اللہ کا فضل اسرار کائنات کی جستجو بھی ہے۔نبی اکرم ﷺْ نے بھی فرمایا:”الکاسب حبیب اللہ“(مسند احمد)کمائی کرنے والا یعنی دولت حاصل کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔آپؐ نے یہ بھی فرمایا:”جو امانت دار تاجر ہے اس کا حشر انبیاء اور صدیقین کے ساتھ ہوگا۔“اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دولت حاصل کرنا کتنا مقدس عمل ہے جو انسان کو انبیاء اور صدیقین سے ملا دیتا ہے۔مجھے تعجب ہوتا ہے جب ہمارے علماء کرام ایک طرف زکاۃ کی فضیلت بیان کرتے ہیں اور دوسری طرف دولت کے حصول اور تجارت کرنے کو معیوب بتاتے ہیں اور اسے دین کے متغائر کہہ کر اس کی اہمیت کم کردیتے ہیں۔حالانکہ جس مال پر زکاۃ دی جائے گی اس مال کا حصول کتنا اہم ہے دین و دنیا کی تقسیم سے دراصل امت کو بڑا نقصان ہوا ہے کہ ہم نے تکوین دولت،حصول ثروت اور اسباب تجارت اختیار کرنے کو خلاف دین اور خلاف تقویٰ سمجھ رکھا ہے۔ہمارے نزدیک وہ شخص متقی ہے جو اپنے بچوں کی روزی کما نے کے بجائے قوم کے صدقات پر پرورش پاتا ہے، ہر گھڑی اوراد و وظائف میں مشغول رہتا ہے،اسے انسانوں کے مسائل اور سماج کی ضروریات سے کوئی لینا دینا نہیں،لیکن سارے دن مسجد میں گوشہ نشیں رہتا ہے،لوگوں کی نظر میں وہ شخص متقی ہے جو میلا کچیلااور گندہ رہتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہم نے اپنے باؤلوں کو اللہ کا ولی گردان لیا ہے،ان کے آستانے بناکر انھیں سجدہ گاہیں بنالیا ہے۔ایسے افراد ہمارے پیر اور شیخ بنے بیٹھے ہیں۔دوسری طرف وہ انسان جو فرض عبادات کے ساتھ ساتھ حلال رزق کی تگ و دو میں اپنے شب و روز بسر کرتا ہے،جو لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنا دن کا سکھ اور رات کا چین برباد کرتا ہے،جو اپنے بھائیوں کے لیے پتھر کھاتا ہے اسے ہم متقی تو دور کی بات پے دیندار بھی نہیں سمجھتے۔صحابہ کرام ؓ ہر وقت انسانوں کے مسائل حل کرنے میں لگے رہتے تھے،وہ دین کے غلبہ کے لیے،کسب حلال کے لیے،انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزادی کے لیے تگ و دو کرتے تھے۔ہم ایک امین اور صادق تاجر کو اپنا پیر اور شیخ نہیں بناتے حالانکہ اس کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے خود کہا ہے کہ اس کا حشر انبیاء اور صدیقین کے ساتھ ہوگا،جس شخص کا حشر نبیوں کے ساتھ ہو،جو شہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا اس سے بڑا شیخ اور کون ہوسکتا ہے؟لیکن ہم ایسا نہیں کرتے۔ہمیں تقویٰ کے اس پندار سے باہر نکلنا چاہئے۔


آخری بات یہ ہے کہ اس ملت کو اللہ تعالیٰ نے ملت واحدہ بنایا تھا۔لیکن اس وقت ہم ملت منتشرہ،ملت مختلفہ اور ملت متعددہ ہوگئے ہیں۔ جب تک ہم ملت واحدہ نہیں ہوں گے۔جب تک ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں ہوں گے،جب تک قرآن و سنت ہماری اساس نہیں ہوں گے،جب تک ہم تمام اختلافات کو طاق پر رکھ کر بنیان مرصوص نہیں ہوں گے تب تک ہم مسائل سے دوچار رہیں گے۔یہ بات قرآن پاک میں بھی فرمائی گئی ہے: ”اور حکم مانو اللہ کا اور اس کے رسول ﷺ کا اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم ڈھیلے پڑجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور ثابت قدم رہو۔ یقیناً اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے (الانفال آیت 46)،جزوی اور فروعی اختلاف ہوسکتے ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ،اور صحابہ کرام کے زمانے میں بھی اس طرح کے اختلافات تھے،اس مختصر مضمون میں اس کی مثالیں دینے سے میں قاصر ہوں۔ہمیں جزوی او ر فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملت واحدہ بننا ہوگا۔ہمارا ایک امام ہو،ایک قائد ہو،ہم فقہی اختلافات میں ایک دوسرے کو گوارہ کریں،کسی کو برا نہ کہیں،رفع یدین کرنے والا اور نہ کرنے والا ایک دوسرے کو حقیر نہ جانے۔یہ جزوی اختلافات خدانخواستہ حلال و حرام کے نہیں ہیں،بلکہ افضل اور غیر افضل کے ہیں۔آپ کے نزدیک کوئی امر افضل ہے تو دوسرے کے نزدیک ہوسکتا ہے وہ غیر افضل ہو۔اس سے کیا فرق پرتا ہے۔جب ہم اس کے اسلام کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کو اہل ایمان میں شمار کرتے ہیں تو وہ ہمارا بھائی کیوں نہیں ہے؟


ایک بنیادی بات وہ ہے جو انجینئر سعادت اللہ حسینی صاحب اکثر اپنی تقریروں میں کہتے رہتے ہیں کہ جوchallenges آتے ہیں وہ  اپنے ساتھ opportunitiesلے کر آتے ہیں۔یعنی جو مسائل آتے ہیں خود ان کے جلو میں ان کا حل بھی ہوتا ہے اس لیے ہمیں کبھی بھی اور کسی بھی حال میں مسائل سے سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ ان مسائل کے درمیان سے ہی ان کا حل تلاش کرنا چاہئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad