جامعہ نگر:(رپورٹ: حسین ساجد) ادارہ ادب اسلامی ہند حلقہ دہلی کے زیر اہتمام ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر میں واقع سی ٹیگ ہال میں ایک طرحی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ مصرع طرح بیسویں صدی کے معتبر تحریکی و فکری شاعر حفیظ میرٹھی کا مشہور مصرع ’آدمی ہوں عزمِ تعمیرِ جہاں رکھتا ہوں میں‘ دیا گیا تھا۔ نشست کی صدارت معروف شاعر عرفان اعظمی نے فرمائی۔ جب کہ نظامت کے فرائض مصدق مبین نے انجام دیے۔ نشست کا آغاز حامد حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد معروف شاعر شاہد انور نے بارگاہِ رسالت مآب میں نعتیہ کلام کا نذرانہ پیش کیا۔ بعد ازاں ادارہ ادب اسلامی دہلی کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ ڈاکٹر خالد مبشر نے صدر محفل، معزز مہمانان اور شعرائے کرام کا پرتپاک استقبال کیا۔ اپنے استقبالیہ کلمات میں موصوف نے ادارے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے ادارے کی تاب ناک تاریخ اور اس کے زریں سلسلے کا عقیدت مندانہ تذکرہ کیا۔ نشست میں قرب و جوار کے تقریباً 30 شعرا عرفان اعظمی، ذکی طارق، احمد علوی، شاہد انور، واحد نظیر، خالد مبشر، عرفان وحید، ساجد ذکی فہمی، خواجہ طارق عثمانی، سفیر صدیقی، اہتمام صادق، شاہ رخ عبیر، احمر ندیم، ناصر مصباحی، عامر اظہر، عامر ندوی، سیف اظہر، علی ساجد، تسنیم عابد، عزیز اختر، آصف بلال، ساحل سہیل، عرفان غازی، مطلب مرزا، حامد حسین اور اظہر شمشاد وغیرہ نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ قارئین کے ذوق طبع کی تسکین کے لیے نشست میں پیش کیے گئے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:
شہر پر آشوب میں ہنسنے پہ ہیں پابندیاں
اس لئے اپنے لبوں پر سسکیاں رکھتا ہوں میں
عرفان اعظمی
باغباں مجھ کو نظر انداز کر پائے گا کیا
ہر لچکتی شاخ پر اک آشیاں رکھتا ہوں میں
ذکی طارق
اس لیے تو کر رہا ہوں شادیوں پر شادیاں
’’آدمی ہوں عزمِ تعمیرِ جہاں رکھتا ہوں میں‘‘
احمد علوی
کاش آقاؐ کہہ سکوں اپنے سخن کے واسطے
چند مصرعے آپ کے شایانِ شاں رکھتا ہوں میں
شاہد انور
ٹھوکروں کی چیز تھی دنیا مگر ہے تاجِ سر
کس جگہ رکھنا تھا اس کو اور کہاں رکھتا ہوں میں
واحد نظیر
مجھ قلندر کے لیے اسکندری کی کیا بساط
جوتیوں کی نوک پر دارائیاں رکھتا ہوں میں
خالد مبشر
جب سے چھوٹا نقشِ پائے یار، کس کو ہوش ہے
کس کی چوکھٹ ہے، یہ اپنا سر کہاں رکھتا ہوں میں
عرفان وحید
عالم بالا ہو یا کہ عالم تحت الثریٰ
گوش بر ہر یک نفس اک رازداں رکھتا ہوں میں
ساجد ذکی فہمی
میں صدا دیتا ہوں جب کافر بھی پڑھتے ہیں نماز.
عشق کے مذہب کی وہ طرز اذاں رکھتا ہوں میں
خواجہ طارق عثمانی
اپنی دیواروں پہ جو سر کے نشاں رکھتا ہوں میں
درد کی تجسم کا شوقِ زیاں رکھتا ہوں میں
سفیر صدیقی
یوں رہا تو جل اٹھے گا خیمۂ دل ایک دن
خود میں جیسی حدت وحشت نہاں رکھتا ہوں میں
اہتمام صادق
یوں تو پہلے ہی قدم پر پا لیا سارا جہاں
لب نشے میں دیکھیے کہاں رکھتا ہوں میں
شاہ رخ عبیر
یہ تماشا بھی سرِ بازار رک کر دیکھنا
بھیڑ میں کیسے تیری حسرت نہاں رکھتا ہوں میں
احمر ندیم
آئیے، تشریف رکھیے، بات کیجیے، جائیے
آپ کو دل چاہیے تو دل کہاں رکھتا ہوں میں
ناصر مصباحی
ضو فشانی دیکھنے والے کچھ اندازہ بھی ہے
روشنی ہے جس قدر اتنا دھواں رکھتا ہوں میں
عامر اظہر
پا سکا خود بھی نہ اب تک اپنی منزل کا سراغ
کہہ رہا تھا زعم میں وہ کارواں رکھتا ہوں میں
محمد عامر
مجھ کو اس دنیا میں چھونے کی اجازت بھی نہیں
لیکن اُس دنیا میں اک پیر مُغاں رکھتا ہوں میں
سیف اظہر
اس بدن کے اجلے اجلے زعفرانی رنگ پر
ہائے مجنوں کہہ کے اپنی انگلیاں رکھتا ہوں میں
علی ساجد
زینت کاشانۂ حسرت ہے یاد رفتگاں
آشیاں میں بھی قفس کی تیلیاں رکھتا ہوں میں
تسنیم عابد رحمانی
حق و باطل میں نہیں کرتا تمیز و امتیاز
کس لئے حس، اور کیوں خوئے بیاں رکھتا ہوں مَیں
عزیز اختر
رفتہ رفتہ سب جنوں کے بھید کھلتے جائیں گے
آگہی کے واسطے عشقِ بتاں رکھتا ہوں میں
آصف بلال
تم نے دیکھا ہوگا میرے ساتھ میں ہوتا نہیں
بھول جاتا ہوں کہ خود کو کب کہاں رکھتا ہوں میں
عرفان غازی
نغمۂ غم بن کر آنکھوں سے رواں ہوتے ہیں اشک
تارِ مطرب پر کبھی جب انگلیاں رکھتا ہوں میں
مطلب مرزا
میں فدا حسن ازل پر ہوں مگر اے زاہدو!
حسنِ دو روزہ میں بھی دل چسپیاں رکھتا ہوں میں
عابد رحمانی
حسرتوں کے پھول جس میں کھل رہے ہیں روز و شب
رنج و غم کا ایک ایسا گلستاں رکھتا ہوں میں
حامد حسین
سانپ اپنے آستینوں میں چھپا رکھتے ہیں جو
فاصلہ ملنے میں ان سے درمیاں رکھتا ہوں میں
محمد اظہر شمشاد
اخیر میں صدر محفل عرفان اعظمی نے صدارتی کلمات اور اپنی غزل پیش کی۔ اپنے صدارتی کلمات میں انھوں نے تمام شعرا بطور خاص نئی نسل کے شعرا کی خوب حوصلہ افزائی کی اور اُن کے لیے مستقبل میں نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ادارے کے خازن ڈاکٹر عرفان وحید کے اظہارِ تشکر پر نشست اختتام پذیر ہوئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں