تازہ ترین

اتوار، 27 اگست، 2023

فرض

فرض 
محمود عاصم(محمود عاصم، جواہرلال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی)
 

" اسلام تو ہر اس چیز کو حرام کرتا ہے جس سے دنیا چلتی ہے"  فیس بک پر اس کمنٹ کو پڑھ کر میں غور و فکر میں ڈوب گیا۔  ایک بار جی میں آیا کہ ایک طویل جواب اس پوسٹ پر لکھ ماروں لیکن یہ سوچ کر ارادہ ترک کردیا کہ اس سے میرا بالواسطہ تعلق ہے کیونکہ وہ میرے ایک صحافی دوست کی دوست ہے اور صحافت کے پیشہ سے وابستہ ہے۔


مجھے لگا کہ وہ اس قدر اسلام سے نالاں کیوں ہے۔ صحافت کا پیشہ تو غیر متعصبانہ رویہ سکھاتا ہے ؟ میرے ذہن نے اپنے آپ سے ایک سوال کیا۔ کیا اس کا یہ کمنٹ تعصب پر مبنی ہے یا پھر لاعلمی کی وجہ سے ہے۔ میں حتمی طور پر اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ مجھے لگا کہ یہ تو اس سے بات کرنے کے بعد ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ 


میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ میرے ذہن کی اسکرین پر ایک اور واقعہ ابھر کر آیا۔ میں یونیورسٹی ہاسٹل کے کامن روم میں نیوز پیپر اسٹیںڈ پر کھڑا اخبارات کی سرخیوں پر نظر دوڑا رہا تھا تبھی مجھے ایک آواز آئی۔ میرے ہاسٹل میں رہنے والا ایک طالبعلم ایک بہت ہی جونیئر اسٹوڈنٹس کے بارے میں کہ رہا تھا کہ اسے مسلم راشٹریہ منچ جوائن کروادو اس کا کیریئر بن جاۓ گا۔ آگے چل کر منچ کا صدر بن جاۓ گا ورنہ آئی ایس آئی ایس جوائن کرلےگا۔ 


یہ جملہ چاہے مذاق میں کہا گیا ہو یا سنجیدگی سے بہرحال اس شخص کی ذہنیت کی عکاسی اور اس کے تحت الشعور کو اجاگر کر رہا تھا۔ مجھے غصہ بہت آیا اور سوچا کہ آر ایس ایس کے اس مسلم راشٹریہ منچ کی دلالی پر کچھ برا بھلا کہوں لیکن نہ جانے کیا سوچ کر چپ رہا۔ شاید بزدلی اور حکمت و مصلحت مجھے نہیں معلوم۔


اب میں ان دونوں واقعات کو ملا کر دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرا ذہن ماضی کے دریچوں کی سیر کرنے لگا۔ ابھی کل ہی تو میں نے ٹمبکٹو (انگریزی ) کے بارے میں تفصیل سے پڑھ رہا تھا جو موجودہ مالی کا  حصہ ہے اور حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 7 لاکھ مخطوطات  اسلامی علوم و فنون پر دبے ہوۓ ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔


 میں قرطبہ اور بغداد نہیں جانا چاہتا تھا بلکہ میں اپنے بغل ہی میں جھانک کر دیکھنا چاہتا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اگر اس طرح کے واقعات تعصب کی بنیاد پر ہورہے ہیں تو میں خود اس تعصب کی خلیج  کو دور کرنے کے لئے کیا کیا ہے۔ اور اگر ان کی بنیاد لاعلمی ہے تو اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے میں میرا کیا رول رہا ہے۔


میں نے فوری طور پر فیس بک سے اس لڑکی کی پروفائل کھولی ۔ فیس بک پر اس کے بارے میں موجود معلومات کو میں نے بغور پڑھا ۔ اس کی سابقہ پوسٹوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے مجھے نہیں لگا کہ اس کے اندر تعصب ہے۔ پھر میں نے اس کو میسیج کیا اور کافی دیر تک ہماری چیٹ ہوتی رہی۔ 


دوران بات چیت اس نے بارہا تسلیم کیا کہ وہ جتنے مسلمانوں سے ملی ہے ان سے اس کو کوئی پرابلم نہیں ہے۔ پھر میں اسلام کی تعلیمات کے اغراض و مقاصد پر ایک مفصل نوٹ لکھ کر اسے بھیجا جس میں میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلام کس طرح کا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے۔

 اور وہ کس طرح سے مغربی معاشرہ سے مختلف ہوگا۔ مغربی معاشرہ کے " ثمرات" اور اس کی وجہ سے ہر شخص کے دل میں جو خلش اور اندورنی بے چینی پائی جاتی ہے میں نے اس کا بھی حوالہ دیا۔  علم و سائنس میں ترقی کرنے کے بعد بھی انسان کس طرح انسانیت سے دور ہوتا جارہا ہے میں نے اس کی طرف بھی اشارہ کیا۔ اعداد و شمار اور خود مغربی مفکرین کے ریسرچ کی روشنی میں میں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح انسان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور کس طرح اس کا اخلاقی اور سماجی دیوالیہ نکل چکا ہے۔ 


میں نے بتایا کہ اسلام کا اپنا نظام حیات ہے اور اس میں سب کے حدود متعین ہیں ۔ عورت اور مرد کی جب الگ صنف قدرت نے بنائی ہے تو لازمی طور پر ان پر ذمہ داریاں ان کے خاص مزاج و طبیعت اور فطری تقاضوں کے حساب سے ہی طے کی ہیں ۔ میں نے کہا کہ کہ اگر اسلام ہر اس چیز کو حرام کرتا جس سے دنیا چلتی ہے تو اسلام آدھی دنیا سے زیادہ حصہ پر صدیوں حکومت نہیں کرسکتا تھا۔ ساتھ ہی میں نے اعتراف بھی کیا کہ ہاں اسلام ہر اس چیز کو حرام کرتا ہے جس سے انسانیت تباہ ہوتی ہے۔ جس سے سماج میں انارکی پیدا ہوتی ہے اور مغربی فکر ہی کے مطابق جس آزادی کی حد دوسروں کے ناک کی حد سے تجاوز کرتی ہے۔


وہ مزید مجھ سے تو بحث نہ کرسکی یا نہیں کرنا چاہتی تھی مجھے نہیں معلوم لیکن میرے دل کو یہ اطمینان ہوگیا تھا کہ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے اور میں اپنے فرض سے سبکدوش ہوچکا ہوں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad