سرائے میر اعظم گڑھ ( محمد خالد اعظمی) الحمدللہ مدرستہ الاصلاح اور اس کی علمی خدمات کیلئے کسی تمہید اور تعارف کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ ادارہ علوم اسلامیہ کی ترویج اور علوم القرآن کے تخصص کیلئے اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ مدرسہ الاصلاح پر حفظ القرآن کا شعبہ تو بہت پرانا ہے لیکن اس کی اپنی کوئی الگ سے عمارت نہیں تھی۔ پہلے بھی مدرسہ کی مسجد میں ہی حفظ کے طلبہ اپنی حفظ کی تعلیم مکمل کرتے تھے۔ بعد میں نئی درسگاہ کی تعمیر کے بعد جب مکتب کے طلبہ نئی عمارت میں منتقل ہوئے تو مکتب کی وہی عمارت شعبۂ حفظ کے لئے مختص ہو گئی تھی ، لیکن پچھلے سال اپریل کے مہینے میں اس عمارت میں بچیوں کیلئے الگ سے ایک اسکول شروع ہوجانے کی وجہ سے حفظ کے طلبہ کو کچھ دنوں کیلئے دوبارہ مسجد میں منتقل کرنا پڑا۔
دارالتحفیظ کی عمارت کی تعمیر کا کام تقریبا تین سال پہلے ہی شروع ہوگیاتھا اور امید تھی کہ ایک سال میں عمارت تیار ہو جائیگی لیکن مکمل ہونے میں وقت اندازے سے تھوڑا زیادہ لگ گیا لیکن اب اللہ کی مدد اور اس کے معماران کی محنت اور لگن سے یہ شاندار دو منزلہ عمارت بن کر تیار ہوچکی ہے اور الحمد لللہ منتظمین نے آج اس کے افتتاح کیلئے ایک شاندار جلسے کا انعقاد کیا ۔ یہ عمارت مرحوم محمد فاروق خاں صاحب ( پھریہا) ، سابق رکن مجلس انتظامی مدرستہ الاصلاح، کی یاد گار کے طور پر ان کے اہل خانہ اور بطور خاص ان کے بڑے صاحبزادے محمد شوکت فاروق خان اور ان کے بھائیوں نے تعمیر کروائی ہے اور شعبۂ حفظ کے طلبہ کی موجودہ جملہ ضروریات کے لئے کافی ہے۔ دو منزلہ عمارت کی پہلی منزل کی چھت کا رقبہ تقریباً ساڑھے چھ ہزار مربع فٹ ہے اور دوسری منزل کا سات ہزار مربع فٹ ہے اور کل ملا کر تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار مربع فٹ کا رقبہ کلاس روم اور دیگر متعلقہ ضروریات کیلئے ہے۔
ہر منزل پر تیرہ کمرے ( دونوں منزل پر کل چھبیس کمرے )، ہر منزل پر چھ بیت الخلاء اور تین غسل خانوں کے ساتھ وضو اور ہاتھ منھ دھونے کیلئے کھلی جگہ برآمدہ اور صحن بھی ہے ۔ عمارت دیکھنے میں نہایت جاذب نظر اور دیکھنے پر اچھا تاثر پیدا کرتی ہے چاروں طرف کمرے ،ان کے سامنے برآمدہ اور بیچ میں صحن ہے۔ مرحوم محمد فاروق خاں صاحب ،جن کے نام پر یہ صدقۂ جاریہ عمارت تعمیر ہوئی ہے، انہیں اور ان کے قریبی دوستوں معین الدین عرف جمن خاں مرحوم، اشتیاق احمد مرحوم، سابق ناظم مرزا اشفاق بیگ مرحوم، عبد الرب خاں مرحؤم ، ڈاکٹر مظفر صاحب مرحوم وغیرہ کو مدرسہ کی تعمیر و ترقی سے انتہا درجے کاعشق تھا ۔
اور یہ سب لوگ مدرسہ کی انتظامیہ کے نہایت فعال ارکان تھے اور زندگی کے آخری ایام تک یہ سب لوگ مدرستہ الاصلاح کی خدمت میں دل وجان سے لگے رہے۔ محمد فاروق خاں صاحب اپنی بیماری کے دنوں میں جبکہ وہ تقریبا معذور ہوگئے تھے لیکن کسی نہ کسی کی مدد سے مدرسہ پر روزآنہ آتے تھے اور تھوڑی دیر رک کر واپس چلے جاتے۔ کہتے تھے کہ مدرسہ پر تھوڑی دیر کیلئے ہی آجاتا ہوں تو دل کو سکون مل جاتا ہے۔ اللہ ان تمام لوگوں کی محنتوں اور قربانیوں کو شرف قبولیت عطا کرے ، دارالتحفیظ کی عمارت کو ان کے حق میں صدقہ جاریہ کے طور پر قبول فرمائے اور اس کا ثواب ان کے صاحبزادوں کو بھی عطا کرے، انہیں مزید ہمت اور حوصلہ دے کہ وہ مدرسہ کی تعمیر اورترقی میں اس سے زیادہ توجہ اور انہماک سے اپنی حصہ داری ڈالتے رہیں تاکہ دوسروں کو بھی ہمت اور حوصلہ ملے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں