تازہ ترین

جمعہ، 11 اگست، 2023

راھل_گاندھی_اور_چوبیس_کے_انتخابات

راھل_گاندھی_اور_چوبیس_کے_انتخابات

حال ہی میں پارلیمنٹ میں دیا ہوا راھل گاندھی کا ایک بیان عام ہورہا جس میں انھونے حکومت کی لغزشوں پر نقد کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو ناانصاف اور ظالم بتاکر لنکا کے راجا راون سے تشبیہ دی ہے ان کے اس ایک بیان سے ایک جم غفیر ان کا  گرویدہ ہوگیا ہے انھونے خوب کہا ، خوب طشت از بام کیا !


راھل گاندھی کے بارے میں مسلمانوں کا موقف کیا ہونا چاہئے ؟ کیا مسلمانوں کے حقوق اور ان پر ہورہے ظلم کے خلاف کوئ ہے لیڈر جو لبوں کو جنبش دے رہا ہے ؟


اگر ان باتوں پر غور کیا جائے تو نتائج یہی برآمد ہوتے ہیں کہ ہندوستان میں خالص و مکمل مسلمانوں کے حقوق اور ان پر ہورہے تشدد پر علاؤہ اسدالدین کے کوئ نقد صریح نہیں کرتا اور راھل گاندھی و دیگر اپوزیشن لیڈروں کو وثوق کے ساتھ مسلمانوں کا مسیحا یا خیر خواہ بالکل نہیں کہا جاسکتا ۔


گر بات صرف یہاں تک کی ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف بولی اقتدار پر بیٹھے لوگوں کی لغزشوں پر نقد کی تو یہ کوئ بڑی بات نہیں اسلئے کہ اپوزیشن کا مفاد ہی موجودہ حکومت کی کوتاہ اندیشیوں پر نقد کرنے سے وابستہ ہے ، 2024 کے انتخابات کی تیاری میں تمام پارٹیاں لگی ہوئ ہیں جو اقتدار پر قابض لوگ ہیں وہ تشدد کے واسطے اور دیگر حکومت کے خلاف برانگیختہ کرکے لوگوں کے پیوند قلب ہورہے ہیں اسلئے موجودہ حکومت کے خلاف بولنا اپوزیشن کا ایک فطری عمل ہے جس پر اسکو مسلمانوں اور اقلیتوں کی مکمل خیر خواہی کا سرٹیفیکیٹ ہرگز دیا نہیں جاسکتا !


خیر خواہی اور ہمارے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا ہے تو اپنی حکومت اور اپنے صوبوں میں ہورہے مسلمانوں پر تشدد کے خلاف بھی باقاعدہ طور بیان دینا و نقد کرنا ہے اور آفات رسیدہ لوگوں کے دوش بدوش کھڑے ہوکر انکا ساتھ دینا ناکہ صرف منی پور اور دیگر دو تین پیش آمدہ  واقعہ پر بولنا ۔


اور جہاں تک بات ہے انتخابات اور تقابل کی تو ہندوستان میں علاؤہ ایک کے کوئ مسلمانوں اور ان کے مفاد کے خاطر نہیں بولتا اور وہ بھی موقع ملتے ہی ان پر ظلم و جبر میں دریغ نہیں کرتے ، مگر تمام کو ایک پیرایہ میں بھی نہیں لیا جاسکتا البتہ تفریق بھی ایک فطری چیز ہے کوئ شخص منتہائے تشدد و ناانصافی کو پہنچا ہوا ہے تو کوئ اس سے کم ہے ، کم والا وہ کم از کم جمہوریت کو تقویت پہنچارہا ہے سیکولرزم اور democracy کے خشک ہوتے شجر کی ابیاری کررہا ہے جس سے ہمارا کچھ نا کچھ تو مفاد وابستہ ہے ۔


اور چونکہ اس وقت کیندر سرکار سے صف آرا ہونے کے لئے کوئ اپوزیشن پوزیشن میں نہیں ہے الا یہ کہ قدرے کانگریس اسلئے جہاں تک سمجھ یہی آتا ہے کہ اس کی اساس کو مضبوط کیا جانا چاہئے اور اقتدار میں لانا چاہئے ورنہ 2024 کے انتخابات کے بعد ممکن ہے کہ صریح ڈکٹیٹر شپ کے دور سے ہم کو گزرنا پڑے !سمرہ عبدالرب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad