تعلیم ہی وہ پلیٹ فارم ہے جس نے انسان کو بلندیوں تک پہنچا یا ہے جس نے حصول علم کو اپنا مقصد بنا یا کامیابیوں کو چوما ہے حصول علم کا حلقہ بہت وسیع ہے انسا ن پوری عمر حصول علم کے لئے وقف کر دے تو بھی علم کی انتہاء کو نہیں پہنچ سکتا یہ بات علیحدہ ہے کہ مختلف شعبوں اور زبانوں میں علم حاصل کیا جاتا ہے ۔
جس میں مذہبی ، تکنیکی ، تحقیقی و دیگرعلوم شامل ہیںتعلیم کو مقدم رکھے بغیر ترقی کا خواب دیکھنا ہی بے معنی ہو گا لیکن افسوس کہ کچھ لوگ ہمارے سماج میں جو اپنے بچوں کو تعلیم دلوارہے ہیں وہی لوگ تعلیم کو دوسرے درجہ پر رکھتے ہیں بچوں کا داخلہ اسکولوں میں کروادینے فیس ادا کر دینے سے ٹیوشن لگا دینے سے ہما ری ذمہ داریاں پوری نہیں ہو جا تیں بلکہ بچوں کی نگرانی بھی ضروری ہو تی ہے بچہ اسکول کب گیا ، کس کے ساتھ گیا اسکول میں اس کا اخلاق کیسا رہا بچہ اپنے استاد کی کتنی عزت کر تا ہے ان تمام پہلوئوں کو جانچنا اور پرکھنا ہو گا بچہ پڑھنے میں کتنا وقت لگا تا ہے اس کے علاوہ کھیل کود میں اس کی کتنی دلچسپی ہے ان تمام پہلوئوں کی نگرانی کر نی ہو گی۔
جو لوگ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کو توجہ دیتے ہیں ان کی اولادیں اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتی ہیں لیکن افسوس کچھ لوگ تعلیم کو دوسرے درجے پر کھتے ہیں ان کی پوری ترجیحات اپنے روز آنہ کے کاموں کو وقت پر انجام دینے کی ہو تی ہے پورا زور آمدنی بڑھانے سماج میں نمایاں نظر آنے شادی بیاہ میں خود کی علیحدہ پہچان کروانے کی کوشش عام بات ہوتی ہے اور انہیں کاموں کو اوولیت دی جاتی ہے اور حصول علم کو دوسرے درجہ میں رکھا جا تا ہے جس کو لے کر تذبذب کا ماحول بنا ہوا ہے جس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں والدین ہیں ان کے بچوں کو جو تعلیم دی جا رہی ہے۔
اس میں بہت سارے مسائل پیدا ہو تے جارہے ہیں خاص طور پر ان کو کتابی علم حاصل تو ہوجاتا ہے لیکن دیگر علوم سے وہ نابلد ہو تے ہیں ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچوں کے حصول علم پر خرچ کر نے پر بعض والدین بخل سے کام لیتے ہیں لیکن جب نام ونمود کی بات ہو تی ہے تو پھر کیا پوچھنا ہوڑ میں شامل ہو کر خود کی شخصیت کو دکھانے کی ہر ممکن کوشش کر تے ہیں اس کے لئے تمام طرح کےا خراجات کو بڑے ہی شوق سے برداشت کر تے ہیں اور خود کو کلہو سمجھ لیا جا تا ہے۔
مسلم معاشرے میں دکھاوے کا حال یہ ہے کہ ان کی حرکتوں کو دیکھ کر ان میں تکبر آجانے کا احساس پیدا ہو تا ہے جو لوگ مالی اعتبار سے مستحکم ہو ئے ہیں ان میں تو بے جا نمائش کی جیسے ہو ڑ لگ گئی ہے اور خود کی پوزیشن کو عیاں کر نے میں پیچھے نہیں چھوٹتے ہیں خواہ ان کے بچے پیچھے کیوں نہ چھوٹ جا ئیں معلوم جب ہو تا ہے جب سب کچھ ہوجاتا ہے پھر رو نا حکومت کا روتے ہیں کہ حکومت ہمیں نمائندگی کا موقع نہیں دیتی ہیں اور وہی لوگ گھوم گھوم کر کہتے ہیں کہ ہمار ابچہ اتنا فیصد نمبر لایا ہے در حقیقت امتحان میں فیصد ضرور لایا لیکن علم حاصل نہ کر پا ئے علم حاصل نہ کر نے کے پیچھے یہ وہی لوگ ہیں جو دنیا وی معاملے میں اس قدر منہمک ہیں کہ ان کو خود کہاں تک پہنچ گئے ہیں ۔
اس کا ہی اندازہ نہیں ہو پاتا ہے ۔
بچوں کی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کی ذمہ داری والدین پر ہو تی ہے بچے ہی آنے والا کل ہو تے ہیں اکثر والدین بچوں کو مسجدوں میں اپنے ساتھ نہیں لے جا تے ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہو تے ہیں جو بچوں کو صفوں سے علیحدہ کر دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہو تے ہیں جو صرف جمعہ کے روز معطر ہو کر مسجدوں میں پہنچتے ہیں جب کہ وہی بچے آنے والے دنوںمیں صفوں کو درست کر نے والے ہو ں گی یہ بات کب سمجھ میں آئے گی یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جو لوگ پنج وقتہ نمازی ہو تی ہے وہ تو بچوں کی شرارت کو آنے والا کل سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن سفید پوش افراد کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ آج جن کو صفوں سے پیچھے ڈھکیلا جا رہا ہے جس کا برا اثر ہو گا اور پھر یہی بچے مسجدوں سے دور ہو جا ئیں گے ۔
ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ساحل پر بیٹھ کر دوسرے کی پریشانیوں کا نظارہ کر تے ہیں دوسرے کے معاملات میں دلچسپی اس قدر بڑھادیتے ہیں کہ خود ہی بہت سارے معاملات میںالجھ جا تے ہیں جس سے سماج کا نقصان ہو نے کے علاوہ ان کا ذاتی نقصان ہو تا ہے ۔قوم کی فلاح بہبود ترقی ، کی باتیں خوب ہو تی ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ خود کی پہل کے بغیر خواب کی تعبیر ممکن نہیں ہے ۔سماج میں بدلائو تب آئے گا جب ہم مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے چھوٹی موٹی میں من مٹائو عام بات بن چکی ہے محلہ گائوں ، خاندان ، ادارے ہر جگہ آپسی من مٹائو کامعاملہ سامنے آتا ہے عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر کھولے گئے اکثر تعلیمی اداروں میں مقدمہ بازی ہے یا کسی کی اجارہ داری کام کر رہی ہے جس سے مسلمانو ں کا مالی خسارہ ہو نے کے علاوہ ہم زہنی کوفت میں مبتلا ہو تے ہیں مقدمہ بازی اور من مٹائو کی وجہ سے سکون غارت ہو جا تا ہے ہمار ا تو سکون چھنتا ہے اور ہماری نسلوں کی ترقی رک جاتی ہے جب کہ آرایس ایس جیسی تنظیمیں بھی اپنی قوم کی فلاح بہبود کے لئے ادارے چلاتی ہیں لیکن ان کے یہاں کسی طرح کا کوئی تنازعہ نہیں ہو تا ہے اکثر دیکھا گیا ہے۔
کہ آپسی تنازعہ میں اداروںکو نقصان اٹھا نا پڑتا ہے ہمیں اپنی انا کے لئے ادارے کا نقصان منظور تو ہو تا ہے لیکن ہمارے اندر در گزر کر نے کا جذبہ ختم ہو تا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گائوں گائوں سے مکاتب جس کو کبھی ہمارے بڑوں نے اپنے خون پسینے سے تیار کیا تھا ہماری انا کی وجہ سے بند ہو نے کے دہانے پر پہنچ جا تے ہیں اور جس کا نتیجہ ہو تا ہے کہ جن اداروں میں آنے والے مستقبل کو سنوارا جا تا تھا وہ ادارے محض اینٹ اور غارے کی دیوار بن کر اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے ہیں مالدار لوگ تو اپنے بچوں کو بڑے اسکولوں میں بھیج کر تعلیم دلوالیتے ہیں لیکن قوم کے اکثر نونہال حصول علم سے محروم رہ جا تے ہیں۔
ہمیں خود کے لئے اپنی نسلوں کے لئے سوچنا ہو گا اور دنیا کمانے کے ساتھ بچوں کے تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہوئے ان کے لئے وقت نکالنا ہوگا سماج میں خود کو علیحدہ دکھانے کے لیے بلا ضرورت دی جا نے والی قر بانیوں سے کچھ حاصل ہو نے والا نہیں ہے
جستنی قربانیاں ہم سماج میں خود کو دکھانے کے لئے کر رہے ہیں اس کا کچھ فیصد اپنی اولاد کو سماج میں اعلی مقام بنا نے میں خرچ کر دیں تو ہماری نسلوں کو سماج میںنمایاں مقام حاصل ہو سکتا ہے ما ل ومتاع جمع کر نے کے بجائے نیک و صالح اولاد بنا دیں مال و متاع خود بخود جمع ہو جا ئیں گے ورنہ اولاد رحمت بننے کے بجائے زحمت ثابت ہو سکتی ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں