تازہ ترین

بدھ، 21 جون، 2023

مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم کی علم دوستی وحق گوئی

مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم کی علم دوستی وحق گوئی

تحریر: ابوالاعلی سید سبحانی

مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم دبستان شبلی وفراہی کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ ایک عرصے تک علامہ شبلی کے خوابوں کے مرکز دارالمصنفین اعظم گڑھ کے ناظم رہے اور ایک طویل عرصے تک علامہ فراہی کے خوابوں کے مرکز مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کے ناظم رہے۔ آپ آخر عمر تک دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس شوری کے بھی رکن رہے۔ 


مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم بہت ہی باوقار، بہت ہی سنجیدہ اور بہت ہی بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ مولانا کا مطالعہ بہت ہی وسیع تھا اور علمی وفکری گہرائی خوب تھی۔ مولانا کم لکھتے تھے لیکن خوب لکھتے تھے۔ مولانا کی کتاب تذکرۃ المحدثین اپنے موضوع پر اردو زبان میں ایک منفرد کتاب ہے۔


مولانا کی خاص بات یہ تھی کہ کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے، نہ کبھی کسی شخصیت سے مرعوب ہوئے، نہ کبھی عام رجحان سے مرعوب ہوئے اور نہ کبھی کسی بڑے مکتب فکر سے مرعوب ہوئے۔ مولانا جس چیز کو قرآن وسنت کی روشنی میں درست سمجھتے تھے اس کا برملا اظہار فرماتے تھے۔


مولانا علم دوستی اور حق گوئی میں اپنی مثال آپ تھے۔ اس کی متعدد مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ مولانا عنایت اللہ سبحانی حفظہ اللہ نے حقیقت رجم لکھی تو اس پر کافی ہنگامہ ہوا۔ باقاعدہ اس کے خلاف مہمات چلائی گئیں اور مصنف کے خلاف نہ جانے کیا کیا سازشیں رچی گئیں۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم رجم کے موضوع پر حقیقت رجم میں پیش کردہ دلائل سے مطمئن تھے، چنانچہ انہوں نے اس موقع پر کھل کر اس کی تائید کی۔ واضح ہو کہ رجم کے متعلق یہ رائے دبستان فراہی میں مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا جلیل احسن ندوی رحمہم اللہ متعدد اکابرین کی تھی۔ مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے تدبر قرآن میں سورہ نور کے تحت اس پر تفصیلی گفتگو فرمائی تھی۔ مولانا جلیل احسن ندوی مرحوم نے بھی بہت دوٹوک انداز میں لکھا تھا۔ لیکن حقیقت رجم میں پہلی بار اس رائے کو اس قدر مدلل اور مرتب شکل میں پیش کیا گیا تھا۔ 


مولانا اسلم جیراج پوری مرحوم کے تعلق سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ منکر حدیث تھے، مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم اس پروپیگنڈہ سے بالکل متاثر نہ ہوئے۔ مولانا اسلم جیراج پوری کی کتاب “محجوب الارث” کے مقدمہ میں مولانا ضیاء الدین اصلاحی نے بہت کھل کر مولانا جیراج پوری کی کتاب “محجوب الارث” سے متعلق اور مولانا جیراج پوری مرحوم کی فکر اور شخصیت سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں:


“حافظ محمد اسلم جیراج پوری نامور عالم اور مشہور مصنف تھے، انھوں نے محجوب الارث کے عنوان سے جولائی اگست 1918 کے معارف میں ایک مقالہ لکھا تھا اور 1923 میں ان کی عربی کتاب الوراثة في الاسلام شائع ہوئی۔ ان دونوں میں فقہ وفرائض کے بعض اہم مسائل پر پہلی مرتبہ اس قدرشرح وبسط سے لکھا گیا۔”


آگے لکھتے ہیں:
“مولانا نے فقہا کے بعض متفق علیہ مسائل پر اپنی بے اطمینانی اور شبہات ظاہر کیے تھے، اس لیے ان پرکسی قدر ردوکد کی گئی جواب بھی جاری ہے، مگرمولا نا اپنے موقف پر قائم واستوار رہے اور اجماع عام سے مرعوب ہوکر اپنی اس رائے کو ترک کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے جسے انھوں نے غور وفکر کے بعد علی وجہ البصیرت اختیار کیا تھا اور جس کو وہ کتاب وسنت کی روح اور اسلامی شریعت وقانون کے مزاج کے عین مطابق سمجھتے تھے۔”

کتاب کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
“خلاصہ یہ ہے کہ مولانا کے نزدیک یتیم پوتے کو محجوب قرار دینے کی کتاب وسنت میں کوئی صراحت نہیں ہے، بلکہ اس میں گوناگوں ظاہری وباطنی خرابیاں ہیں، یہ تو محض فقہا کی ایک رائے ہے جس نے ایک مسلمہ کی صورت اختیار کر لی ہے، انھوں نے جن دو قاعدوں کا اعتبار کر کے یہ رائے قائم کی ہے ان کا اگر لحاظ کیا جائے تو خودان کے متعدد مسلمات باطل قرار پائیں گے۔”

مقدمہ کے آخر میں لکھتے ہیں:
“مولانا کو عام طور پر منکر حدیث سمجھاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ صرف قرآن ہی کو قطعی اور حجت مانتے ہیں مگر مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کی تردید ہوتی ہے، وہ لکھتے ہیں: (اس لیے تاوقتیکہ قرآن شریف کی کسی آیت سے اس مسئلہ کا ثبوت نہ دیا جائے یاکوئی حدیث صحیح یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا کوئی فیصلہ پیش نہ کیا جائے، اس وقت تک ہم کیونکر ایسا مسئلہ تسلیم کرلیں جو اسلامی شفقت بلکہ انسانی فطرت کے بھی خلاف معلوم ہوتا ہے ۔

اور جس کے مان لینے سے دشمنان اسلام کو اسلام کے قانون پر اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے، علمائے امت نبی تو نہیں ہیں کہ معصوم ہوں، چنانچہ خودان میں باہم بے شمار اختلافات ہیں۔ قطعی حجت صرف کلام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور بس، قرآن وحدیث دونوں متوفی بیٹے کی اولاد کو قطعا محروم نہیں کرتے، فقہ میں اقرب کا صحیح مفہوم متعین نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ یتیم اولاد محجوب قرار پا گئی، ۔


حالانکہ خود فقہا کے یہاں اس کے خلاف مثالیں موجود ہیں، مثلا بیٹی کے ساتھ پوتی کو کبھی وہ حصہ دلاتے ہیں نیز پوتی، پڑوتی، سکڑوتی سب کو ایک درجہ میں رکھ کر برابر ترکہ دیتے ہیں لیکن یتیم اولاد کے بارے میں آکر یک نظر حجب حرمان کا فرمان صادر کر دیتے ہیں۔) اس تحریر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیر بحث مسئلہ میں وہ اپنی رائے کو فقہاء کے ضرور خلاف سمجھتے تھے مگر کتاب وسنت کے خلاف نہیں سمجھتے تھے۔”


مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم کی علم دوستی اور حق گوئی کی یہ محض دو مثالیں ہیں۔ ممکن ہوا تو مولانا کی تحریروں کی روشنی میں مولانا کی علم دوستی اور حق گوئی پر جلد ہی ایک تفصیلی مقالہ پیش کیا جائے گا۔ وباللہ التوفیق

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad