’غداری‘ کی آڑ میں ---
ودود ساجد
(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
22ویں لا کمیشن آف انڈیا نے ’غداری کے قانون‘ کو مزید سخت بنانے کی جو آتش گیر سفارش کی ہے وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی دیرینہ خواہش اور مشاہدات کے عین برعکس ہے۔ یہاں تک کہ یہ سفارش خود مرکزی حکومت کے اس عزم کے بھی خلاف ہے جس کاوعدہ اس نے عدالت عظمی میں کیا ہے۔۔
سپریم کورٹ میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124A کے خلاف متعدد رٹ پٹیشن زیر سماعت ہیں۔ حکومت نے جو حلف نامہ عدالت میں داخل کر رکھا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ’’وزیر اعظم اس خیال کے ہیں کہ ہمیں ایک ملک کی حیثیت سے انگریزی استعمار کے ذریعہ لادے گئے اس بوجھ کو اتارنے‘ بشمول ان فرسودہ قوانین اور عمل کو ختم کرنے کیلئے‘ جن کی افادیت اب ختم ہوگئی ہے‘ اور زیادہ محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
لیکن لا کمیشن چاہتا ہے کہ غداری کے قانون کو نہ صرف باقی رکھا جائے بلکہ اسے مزید سخت کرکے اس کے ذیل میں دی جانے والی تین سال کی سزا کو بڑھاکر سات سال کردیا جائے۔ اس ضمن کے دوسرے نکات کے علاوہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر حکومت اور عدالت کی رائے کے خلاف لا کمیشن جارحیت سے بھرپور اتنی منفی اور غیرانسانی رائے کیوں رکھتا ہے۔
2021 میں دوسرے عرضی گزارو ں کے علاوہ میسور میں مقیم فوج کے ایک 80 سالہ (ریٹائرڈ) میجرجنرل سدھیر وومباٹکیرے نے بھی سپریم کورٹ میں ایک رٹ دائر کرکے آئی پی سی کی دفعہ 124Aکو ختم کرنے کی استدعا کی تھی۔ انہوں نے اس قانون کے انتہائی جابرانہ استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون بجائے خود غیر آئینی ہے اور انگریزوں کے زمانے کا وضع شدہ ہے‘لہذا اب اسے ختم کیا جانا چاہئے۔
یہ ایک حیرت انگیز اور خوشگوار واقعہ ہے کہ سپریم کورٹ نے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124A کے استعمال اور اس کے نفاذ پر اگلی سماعت تک پابندی عاید کردی تھی۔ عدالت نے حکومت کو اس امر کی اجازت بھی دیدی تھی کہ وہ دفعہ 124A اور اس کی ذیلی شقوں پر نظر ثانی کرے۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف حکومت سے کہا کہ وہ فی الحال اس دفعہ کے تحت مقدمات درج کرنے سے احتراز کرے بلکہ اس دفعہ کے تحت درج مقدمات میں ماخوذ اور جیل میں مقید افراد سے بھی کہا کہ وہ ضمانت کے حصول کیلئے عدالتوں کا رخ کرسکتے ہیں۔
’فرسٹ پوسٹ‘ نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ سے اتنی بڑی راحت کا حصول ممکن نہ تھا اگر اس سلسلہ میں متعدد رٹ پٹیشن دائر نہ کی جاتیں۔ ان تمام عرضی گزاروں کی قیادت میجر جنرل سدھیر وومباٹکیرے نے کی اور اس محاذ پر انہوں نے ناقابل فراموش کردارادا کیا۔
میجر جنرل سدھیر وومباٹکیرے ایک متحرک قسم کے سماجی رضاکار ہیں۔انہوں نے ماحولیات اور حقوق انسانی سے متعلق مختلف اشوز ٖپر تحریکیں بھی چلائی ہیں۔ انہوں نے میسور کے آثار قدیمہ کے تحفظ کیلئے بھی مہم چلائی ہے۔عمر کے 80 سال پار کرنے کے باوجود وہ آج بھی سائیکل پر گھوم کر لوگوں کو مختلف سماجی اشوز سے متعلق بیدار کرتے پھرتے ہیں۔ لیکن ان کا ایک کارنامہ ایسا بھی ہے کہ جس کے سبب وہ مختلف عناصر اور خاص طور پر شرپسندوں کی آنکھوں کا کانٹا بھی بن گئے ہیں۔
انہوں نے ہی سب سے پہلے ہری دوار میں منعقد دھرم سنسد میں کی جانے والی زہرافشانی کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرکے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔ دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف جو زہر افشانی کی گئی تھی ماضی قریب میں اس کی چند ہی مثالیں ملتی ہیں۔
یہ دھرم سنسد جیسے ہی واقعات تھے جن کے سبب سپریم کورٹ نے جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی میں پورے ملک کی پولیس کو حکم دیاکہ وہ نفرت انگیز تقریروں اور پروگراموں کے خلاف کسی شکایت کے درج ہونے کا انتظار کئے بغیر کارروائی کرے۔ یہ حکم اب ایک قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔
مئی 2022 میں عرضی گزاروں کے وکیل کپل سبل نے دعوی کیا تھا کہ غداری کے قانون کے تحت پورے ملک میں 800 مقدمات درج ہیں جن کے تحت 13 ہزار افراد جیلوں میں بند ہیں۔ واضح رہے کہ اس قانون کے تحت ماخوذ افراد کو ضمانت حاصل کرنے کا حق نہیں تھا کیونکہ اس دفعہ کے تحت سرزد ہونے والا جرم ناقابل ضمانت تھا۔ لیکن سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد اس دفعہ کے تحت ضمانت کا حصول ایک ضابطہ بن گیاہے۔
سپریم کورٹ کی اس ہدایت کے بعد قانونی حلقوں میں کچھ شکوک وشبہات بھی پیدا ہوئے تھے کہ آیا ہدایت کے الفاظ کے پیش نظر حکومت‘ پولیس‘ ٹرائل کورٹس اور ہائی کورٹس اس ہدایت پر عمل بھی کرسکیں گی؟۔ حمزہ لکڑوالا اور نوجوت پونیا کی ایک تحقیق کے مطابق سپریم کورٹ کی اس ہدایت کے دو ماہ بعد کا جائزہ بتاتا ہے کہ متعدد معاملات میں مقامی عدالتوں اور مختلف ہائی کورٹس نے ماخوذ افراد کو ضمانتیں بھی دیں اور ان کے خلاف دفعہ 124Aکے تحت جاری سماعتوں کو روک بھی دیا۔
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ متعدد معاملات میں پولیس نے دفعہ 124Aکے علاوہ دوسری دفعات اور خاص طور پر جارحیت سے بھرپور قانون یو اے پی اے کے تحت بھی لوگوں کو ماخوذ کررکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ انہیں غداری کے قانون کی دفعات میں ضمانت ملنے کے باوجود دوسرے سخت قوانین اور دفعات کے سبب جیلوں میں ہی رہنا پڑ رہا ہے۔
یہ بات تو حیرت انگیز تھی ہی کہ مجاہدین آزادی کے خلاف انگریزوں کے بنائے ہوئے اس قانون کو آزاد ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی نے برقرار رہنے دیا‘ یہ بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے کہ 1962 میں سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی آئینی بنچ نے اس قانون کو جائز قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ ’کیدار ناتھ ساہنی بنام بہار سرکار‘ کے طور پر مشہور ہے۔
میجر جنرل سدھیر اور دوسرے فریقوں نے تازہ معاملہ میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس قانون کے استعمال اور نفاذ کے بعدکچھ نئی صورتحال قائم ہوئی ہے اور سپریم کورٹ تازہ حقائق کی بنیاد پر اس قانون پر از سرنو سماعت کرسکتی ہے۔ مرکزی حکومت نے یہ کہتے ہوئے سہ رکنی بنچ کے ذریعہ ان عرضیوں کی سماعت پر اعتراض کیا کہ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ اس پر فیصلہ سناچکی ہے۔
عین اس وقت جب چیف جسٹس رمنا‘ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ یہ فیصلہ کرنے ہی والی تھی کہ ان عرضیوں پر وہ خود سماعت کرے یا بڑی بنچ کو منتقل کردے مرکزی حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کرکے کہہ دیا کہ چونکہ انگریزوں کے زمانے کے قوانین کو ہم تبدیل یا ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں اس لئے غداری کے قانون پر بھی نظر ثانی اور از سرنو غور کرنے کو تیار ہیں۔
تاہم حکومت نے واضح طور پر یہ نہیں بتایا کہ نظر ثانی کی مدت کے دوران وہ اس قانون کے استعمال اور نفاذ سے باز رہے گی یا نہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اس قانون کے استعمال پر اگلی سماعت تک کیلئے پابندی عاید کردی کہ خو د حکومت بھی عدالت کی اس بادی النظر رائے کی تائید کر رہی ہے کہ یہ قانون فرسودہ ہوچکا ہے۔
لا کمیشن کے چیرمین جسٹس ریتو راج اوستھی نے بجا طور پر سمجھا ہوگا کہ ان کے موقف سے حکومت خوش ہوگی۔لیکن حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے اپنی خوشی کو پہلے ہی رہن رکھ دیا ہے۔
جسٹس اوستھی نے ابھی ہار نہیں مانی ہے۔اب انہوں نے یونیفارم سول کوڈ پر مشورے طلب کرکے حکومت کو خوش ہونے کا ایک اور موقع دیدیا ہے۔ حالانکہ ان سے پہلے 21 ویں لا کمیشن نے وضاحت کے ساتھ کہہ دیا تھا کہ ’اس مرحلہ پر یونیفارم سول کوڈ نہ ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب ہے‘۔
21 ویں لا کمیشن کے چیرمین جسٹس بی ایس چوہان تھے جن کی مدت 31 اگست 2018 کو ختم ہوگئی تھی۔ 22 ویں لا کمیشن کے چیرمین کا عہدہ جسٹس اوستھی نے 9 نومبر 2022 کو سنبھالا تھا۔وہ 2 جولائی 2022 کو کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تھے۔
یہ جسٹس اوستھی ہی تھے جن کی قیادت والی سہ رکنی بنچ نے 15 مارچ 2022 کو کرناٹک میں حکومت کے ذریعہ مسلم طالبات کے حجاب اوڑھنے پر پابندی کے فیصلہ کو درست قرار دیا تھا۔اب مذکورہ دو اشوز پران کے موقف سے کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔انہوں نے وہی کیا جو ان سے متوقع اور مطلوب تھا۔
ہرچند کہ لا کمیشن کوئی آئینی ادارہ نہیں ہے اور حکومت اس کی سفارشات کو ماننے کی پابند نہیں ہے تاہم ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ غداری کے قانون کو عملی طور پر معطل کرچکی ہے‘ لاکمیشن احیاپسندانہ انداز اختیارکرتے ہوئے استعماریت کے ظلم کی تائید کررہا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ کلیسورم راج نے لکھا ہے کہ غداری قانون کے سلسلہ میں لاکمیشن کی مذکورہ رپورٹ نہ تو تحقیقی ہے اور نہ ہی متوازن ہے۔ یہ ایک جانبدارانہ رپورٹ ہے اور اس کا ہندوستان میں حقوق انسانی کے تصور پر تباہ کن اثر پڑسکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ اس امر پر سنجیدگی سے غور کررہا ہے کہ ’کیدارناتھ ساہنی‘ کا فیصلہ نظر ثانی کا متقاضی ہے‘ لا کمیشن کو اور زیادہ محتاط‘ حساس اور باخبر رہنا چاہئے۔ اگر لا کمیشن کی سفارش کو تسلیم کرلیا گیا تو غداری کے قانون میں اور زیادہ سفاکیت آجائے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا عدالت میں اپنے واضح حلف نامہ کے باوجود مرکزی حکومت ایسا کرسکتی ہے؟ بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن یقین کے ساتھ کچھ کہنا بھی مشکل ہے۔ لا کمیشن سے بجا طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ حقوق انسانی کے تعلق سے حساس رویہ اختیار کرے گا لیکن اس نے غداری کے قانون کے سلسلہ میں حقوق انسانی‘ آزادی اظہار اور شخصی آزادی سے متعلق ان عالمی معاہدوں تک کا خیال نہیں رکھا جن پر ہندوستان نے دستخط کر رکھے ہیں۔
لا کمیشن کو ایک طرف جہاں غداری قانون کے متن اور اس کے الفاظ پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے وہیں اس نے یہ نتیجہ بھی اخذ کر لیاہے کہ ہندوستان کی داخلی سلامتی کو لاحق خطرہ حقیقی ہے جبکہ غداری قانون کے ناجائز استعمال کی بات محض الزام ہے۔۔
لا کمیشن کو غداری کے قانون کے استعمال کا الزام فرضی لگ رہا ہے۔ کیا واقعی جسٹس اوستھی کو علم نہیں ہے کہ درجنوں واقعات میں ماخوذ افراد آخر کار باعزت بری ہوچکے ہیں۔ ایک واقعہ تو بہت تازہ ہے۔ 14 جون 2023 کو کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس ہیمنت چند نگودر کی بنچ نے بیدر کے مشہور شاہین اسکول کی انتظامیہ سے وابستہ چار افراد کے خلاف غداری کی ایف آئی آر کو کالعدم کردیا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ سی اے اے کے خلاف ایک ڈرامہ پیش کرنے پر اسکول کی ہیڈ مسٹریس اور مکالمہ ادا کرنے والی بچی کی والدہ کو پولیس نے متعدد دفعات سمیت غداری کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔ یہی نہیں پولیس نے ’جوینائل ایکٹ‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کم سن بچوں تک کو وردی میں ملبوس ہوکر پوچھ تاچھ کرکے دہشت زدہ کیا تھا۔ کتنے ہی دنوں تک شرپسند چینل اسکول کو بدنام کرتے رہے۔اسکول انتظامیہ اتنے عرصہ تک ہیبت میں رہی۔ اب ہائی کورٹ نے نہ صرف غداری کی دفعات کو بلکہ دوسری تمام دفعات کو بھی کالعدم کردیا اور اسکول انتظامیہ کے چار افراد کے خلاف جاری مجرمانہ مقدمہ کو ختم کردیا۔
حسب دستور زیر نظر موضوع کے بہت سے نکات اور پہلو ابھی باقی ہیں لیکن وہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے جو میں عرصہ سے کرتا آرہا ہوں۔ کیا اب بھی ہمارے اداروں‘ انجمنوں‘ جماعتوں اور تنظیموں کو ایک ایسے مشترکہ لیگل ریسرچ سیل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جو اس طرح کے اشوز پر نظر رکھے؟
اگر ایسا کوئی شعبہ ہوتا تو وہ مکمل اعداد و شمار کے ساتھ جسٹس اوستھی کو جاکر دکھاتا اور کہتا کہ آپ کہتے ہیں کہ غداری قانون کے ناجائز استعمال کی بات محض الزام ہے‘ جبکہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ غداری کے محض فرضی الزامات لگاکر سینکڑوں بے قصور زندگیاں تباہ و برباد کردی گئی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہماری جماعتوں کو جسٹس اوستھی کی سفارش کا بھی کچھ علم ہے یا نہیں لیکن یہ ضرورہے کہ ’ناقابل قبول‘ اور ’ناقابل برداشت‘ جیسے بیانات جاری کرنے میں ہم پیچھے نہیں ہیں۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں