’منصف کی بے بسی‘---
ودود ساجد
(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
گزشتہ 2 مئی کو سپریم کورٹ کی عدالت نمبر 3 کے بے حس وحرکت در و دیوار نے جو کچھ سنا وہ کم سے کم میں نے پہلی بار سنا۔ گجرات کی ستم رسیدہ بلقیس بانو کے دبنگ مجرموں نے اپنی بے خوفی کیلئے مشہور جسٹس کے ایم جوزف کی ’بے بسی‘ دیکھ کر اپنے گھروں میں شیطانی قہقہے ضرور لگائے ہوں گے۔
گجرات‘مرکزی حکومت اور مجرموں کے وکیلوں نے بھی راحت کا سانس لیا ہوگا۔ انہوں نے بھری عدالت میں جسٹس جوزف کے ذریعہ ظاہر کئے گئے خدشہ اور اندیشہ پر کوئی رائے ظاہر نہیں کی۔ انہوں نے جسٹس جوزف کو یہ یقین دلانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی کہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔
یہی نہیں مرکزی حکومت اور ان مجرموں کے وکیلوں نے تو کھلے عام جسٹس جوزف کی وہ پیشکش بھی ٹھکرادی جو انہوں نے اپنی گرمیوں کی چھٹی قربان کرنے کی قیمت پر کی تھی۔ اس کے بعد جسٹس جوزف نے جو کہا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔
ملک بھرکے انصاف پسند انتظار کر رہے تھے کہ 2 مئی کو سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کے مجرموں کو جیل سے قبل از وقت چھوڑے جانے کے خلاف حتمی سماعت ہوگی۔ انصاف کے طالب بلقیس خاندان کو بھی اس دن کا بڑی بے تابی سے انتظار ہوگا۔ ان کے وکیلوں کو بھی یقین ہوگا کہ 2 مئی کو حتمی سماعت ہونے کے بعد اس قضیہ کا فیصلہ بھی جلد آجائے گا۔ کم سے کم 19 مئی تک تو آہی جائے گا کیونکہ پھر 20 مئی سے گرمیوں کی چھٹیاں ہوجائیں گی اور معمول کی عدالت نہیں لگے گی۔۔۔
ہرچند کہ جسٹس جوزف 16 جون کو سبکدوش ہوں گے لیکن گرمیوں کی چھٹی کے سبب 19 مئی ان کے کام کاج کا آخری دن ہوگا۔ یعنی اب اس قضیہ کا فیصلہ جسٹس جوزف کے قلم سے نہیں ہوگا۔ ایک یہی کیا اس طرح کے کئی اہم مقدمے بھی ان کی عدالت فیصل نہیں کرسکے گی۔ انصاف کے طلب گار متاثرین اس دہائی کے سب سے بہترین جج کے ہاتھوں انصاف نہیں پاسکیں گے۔ یہ ایک المیہ ہی ہے کہ جسٹس جوزف جیسے جج کے 26-27 قیمتی دن انصاف بانٹے بغیر ہی گزر جائیں گے۔۔
جج بھی انسان ہوتے ہیں۔ وہ بھی گردوپیش کے احوال سے متاثر ہوتے ہیں۔ان کے احساسات بھی مظلوموں کے حالات سے مشتعل ہوتے ہیں۔لیکن ججوں کوبہت کچھ کہنے کی قانونی آزادی کے باوجود سب کچھ کہنے کی اخلاقی آزادی نہیں ہوتی۔ یہ جسٹس جوزف ہی تھے جنہوں نے مئی 2016 میں اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر مرکزی حکومت سے لوہا لیا تھا۔حکومت نے آرٹیکل 356 کے تحت اتراکھنڈ کی کانگریس حکومت کو برطرف کرکے صدر راج نافذ کردیا تھا۔
جسٹس جوزف نے بھری عدالت میں کہا تھا: ’’اس طرح توآپ ہر ریاست میں کرسکتے ہیں‘ 10-15دن کیلئے صدر راج نافذ کرو اور پھر کسی اور کو حلف دلوادو‘ غصہ ہونے سے زیادہ ہم تکلیف میں ہیں کہ آپ اس طرح کا عمل انجام دے رہے ہیں‘ ایک اعلی اتھارٹی (مرکزی حکومت) ایک پرائیویٹ پارٹی کی طرح سلوک کر رہی ہے۔‘‘
اُس وقت کیرالہ ہائی کورٹ کے تین سینئر وکلاء کو جسٹس جوزف کی اس بے باکی پر حیرت ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ کیرالہ ہائی کورٹ میں تعیناتی کے دوران انہوں نے ہمیشہ جسٹس جوزف کو ایک خاموش طبع‘ غیر معمولی اور صداقت پر عمل پیرا جج پایا۔وہ بہت کم گو‘ خوش گو اور حلیم الطبع جج ہیں۔ان سے ایسی سخت بیانی کی انہیں امید نہیں تھی۔ جسٹس جوزف نے اتراکھنڈ میں صدر راج نافذ کرنے کے حکمنامہ پر دستخط کرنے کے لئے صدر جمہوریہ پر بھی تنقید کی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ صدر جمہوریہ بھی انسان ہیں‘ ان سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔
اب 2 مئی 2023 کو انہوں نے جو کہا وہ مئی 2016 کے کہے سے بالکل مختلف ہے۔انہوں نے بلقیس بانو مقدمہ کی سماعت کے اختتام پر بھری عدالت میں کہا کہ ’’ہم خوب سمجھ رہے ہیں کہ سزا یافتگان نہیں چاہتے کہ یہ مقدمہ یہ بنچ سنے‘‘۔انہوں نے کہا کہ’’یہ میری سبکدوشی سے قبل باقی رہ جانے والے وقت کو گزارنے کی ایک مذموم اور برہنہ کوشش ہے۔ میرے ساتھ یہ رویہ نامناسب ہے۔‘‘ اس پربلقیس بانو کی وکلاء ورندا گروور اور اندرا جے سنگھ نے بھی سخت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ انصاف کے عمل میں خلل ڈالنے کی سازش ہے۔
اندرا جے سنگھ نے جسٹس جوزف کو مخاطب کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ چونکہ آپ کی سبکدوشی جون میں ہے اس لئے 22 مئی سے شروع ہونے والی گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران آپ اس مقدمہ کی سماعت کرسکتے ہیں۔اس پر جسٹس جوزف نے کہا کہ ’ہم چھٹیوں کے دوران بھی عدالت لگانے کو تیار ہیں۔‘ لیکن ریاستی اور مرکزی حکومت کے وکیل تشار مہتا نے اس تجویز کی حمایت نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف اسی مقدمہ میں چھٹیوں کے دوران پیش نہیں ہوں گے بلکہ کسی اور مقدمہ کیلئے بھی دستیاب نہیں ہوں گے۔اس پر جسٹس جوزف نے کہا کہ ’پھر ہم اس مقدمہ کی سماعت کو مکمل نہیں کرسکیں گے۔‘
فی الواقع بلقیس کے مجرموں کی یہی خواہش تھی کہ جسٹس جوزف اس مقدمہ کو فیصل نہ کریں۔ یہاں تک کہ ہدایت دئے جانے کے باوجود مارچ سے اب مئی تک ہونے والی کسی بھی سماعت میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے مجرموں کی قبل از وقت رہائی سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش نہیں کیں۔ 2 مئی کو بھی دونوں حکومتوں کے وکلاء بغیر دستاویزات کے ہی عدالت میں پہنچے تھے۔لیکن جب انہوں نے یقین کرلیا کہ جسٹس جوزف اس مقدمہ کو فیصل نہیں کرپائیں گے تو انہوں نے 2 مئی کی شام کو سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے وعدہ کر لیا کہ حکومتیں یہ دستاویزات پیش کرنے کیلئے تیار ہیں۔
جسٹس جوزف اور جسٹس ناگرتھنا کی بنچ نے پچھلی سماعت کے اختتام پر ہی واضح کردیا تھا کہ 2 مئی کو اس معاملہ کی حتمی سماعت ہوگی۔ عدالت نے تمام فریقوں کے وکلاء کو تیار ہوکر آنے کی ہدایت دی تھی۔ لیکن سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی مجرموں کے ایک وکیل نے نیا شوشہ چھوڑ دیا۔اس نے بلقیس بانو کی خاتون وکیل شوبھا گپتا پر الزام عاید کیا کہ انہوں نے عدالت کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور یہ کہ جھوٹا حلف نامہ پیش کرکے دعوی کیا ہے کہ مجرموں میں سے دو نے نوٹس وصول نہیں کیا۔ مخالف وکیل کا دعوی تھا کہ اس کے موکل ہندوستان سے باہر تھے۔
بلقیس کی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے عدالت کی ہی اجازت پر وکیلوں کو دستی نوٹس دینے کے علاوہ مجرموں کو بذریعہ میل بھی نوٹس بھیج دیا تھا۔ کچھ مجرموں کے وکیلوں نے کہا کہ ہم نے نوٹس اس لئے وصول نہیں کیا کہ لفافہ پر سپریم کورٹ کی مہر نہیں تھی۔اس پر جسٹس ناگرتھنا نے فوراً ریکارڈ چیک کیا اور اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے مجرموں کے وکیلوں کی سرزنش کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ نہ صرف ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں بلکہ عدالت میں کھلاجھوٹ بولنے کی جرات بھی کررہے ہیں۔
دراصل معاملہ کو لٹکانے کی یہ ایک مذموم حکمت عملی تھی۔ مجرموں کے وکیلوں نے عدالت سے کہا کہ انہیں وقت سے پہلے نوٹس نہیں ملا اور یہ کہ جواب داخل کرنے کیلئے انہیں وقت درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون کے مطابق عدالت آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ مجرموں میں سے ایک کے وکیل سے جسٹس ناگرتھنا نے غیض میں آکر سوال کیا کہ’’اب آپ عدالت میں موجود ہیں‘ کیا اب آپ نوٹس وصول کریں گے یا نہیں؟‘‘ اس نے کہا کہ میں نوٹس وصول کرلوں گا لیکن جواب دینے کیلئے مجھے وقت درکار ہے۔ جسٹس جوزف نے اس سے سوال کیا کہ اگر آپ کو نوٹس نہیں ملا تو آپ کو کیسے پتہ چلا کہ آج اس معاملہ کی سماعت ہے؟
عدالت سمجھ رہی تھی کہ مجرم کیا چاہتے ہیں۔اس عمل میں مرکز اور ریاست کے وکیل بھی شامل تھے۔آخر کار عدالت نے اس معاملہ کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔عدالت نے واضح کیا کہ دو ہفتوں کے بعد بھی صرف یہ جاننے کیلئے سماعت ہوگی کہ آیا تمام فریقوں کو نوٹس مل گیا ہے یا نہیں۔ سماعت کے دوران جسٹس جوزف مقدمہ کو لٹکانے کی شاطرانہ ترکیبوں پر مسلسل اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے رہے۔
آخر میں انہوں نے مجرموں کے وکیلوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ صاف ہوگیا ہے کہ کیا کوشش کی جارہی ہے۔میں 16جون کو ریٹائر ہوجائوں گا۔چھٹیوں کے سبب میرے کام کاج کا آخری دن 19مئی ہوگا۔ یہ بالکل واضح ہوگیا ہے کہ آپ لوگ نہیں چاہتے کہ یہ بنچ اس مقدمہ کی سماعت کرے۔لیکن میرے ساتھ یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ہم نے صاف کہہ دیا تھا کہ آج کی سماعت حتمی ہوگی۔آپ عدالت کے افسر ہیں۔آپ کو یہ کردار نہیں بھولنا چاہئے۔آپ کوئی کیس جیت سکتے ہیں یا ہار سکتے ہیں۔لیکن اس عدالت کے تئیں آپ اپنے فرائض اور ذمہ داری کو فراموش مت کریں۔‘‘
یہ وقت مظلوموں اور انصاف کے طلبگاروں پر بڑا کٹھن ہے۔ بلقیس بانو پر جو ظلم ہوا اسے بیان کرنے کیلئے بھی مضبوط اعصاب کی ضرورت ہے۔ہرچند کہ اس کے مجرموں نے ایک خاصا عرصہ جیل میں گزارا لیکن اس کے باوجود قبل از وقت ان کی رہائی ایک خاص طبقہ کیلئے ایک پیغام ہے۔ اور ایسے ایک دو نہیں درجنوں پیغام دئے جاچکے ہیں۔ جسٹس جوزف کے ساتھ 2 مئی کو جو کچھ ہوا وہ بھی عدلیہ کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔جسٹس جوزف نے جس بے بسی کا اظہار کیا وہ عدیم المثال ہے۔
حیرت ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یا بار کونسل آف انڈیا نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ امید ہے کہ چیف جسٹس سمیت باقی سینئر ججوں نے جسٹس جوزف کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سے ان کے دل کی کیفیت کو ضرور محسوس کیا ہوگا۔ عدلیہ کا وقار ہمیں یہ اظہار خیال کرنے سے روکتا ہے کہ کوئی دوسرا جسٹس جوزف نظر نہیں آتا لیکن چیف جسٹس سے یہ درخواست تو کی ہی جاسکتی ہے کہ چھٹیوں کے بعد جب ستم رسیدہ بلقیس بانو کے اس مقدمہ کی حتمی سماعت ہو تو شاطر مجرموں کے منصوبہ کو ناکام کرنے کیلئے اس بنچ میں جسٹس بی وی ناگرتھنا کے ساتھ آپ خودبھی شریک ہوں۔
ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ جسٹس جوزف پر بالواسطہ طور پر عدم اطمینان کا اظہار کرکے مجرموں اور حکومت کے وکیلوں نے سپریم کورٹ کے باقی تمام ججوں کی دیانت داری کو مشکوک کردیا ہے۔
جس طرح سپریم کورٹ انصاف کے طلبگاروں کی آخری دنیاوی آماجگاہ ہے‘ اسی طرح ججوں میں چیف جسٹس بھی آخری امید ہوتا ہے۔انصاف کا گلا گھونٹنے والے گروہ اس وقت چیف جسٹس سے خائف ہیں۔مظلوموں کے پاس تو اپنے خالق کی طرف دیکھنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
شیخ سعدی کہتے ہیں:
بہ ترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از درحق بہر استقبال می آید
یعنی مظلوموں کی آہ سے ڈرو کہ جب وہ دعا کرتے ہیں تو بارگاہ خداوندی سے قبولیت خود اتر کر آتی ہے اور دعا کا استقبال کرتی ہے۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں