تازہ ترین

بدھ، 10 مئی، 2023

عمران خان کی گرفتاری سے اٹھتے سوالات

عمران خان کی گرفتاری سے اٹھتے سوالات

شکیل رشید ( ایؑیٹر ،ممبئی اردو نیوز )

 پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری نے ایک بار پھر پڑوسی ملک میں جمہوری قدروں کی پامالی کا سچ سامنے لا کھڑا کیا ہے ۔ جس انداز سے عمران خان کو گرفتار کیا گیا ہے ، جمہوریت پسندممالک و اشخاص اس کی کسی طور پر بھی  حمایت نہیں کر سکتے ۔ اطلاعات ہیں کہ اسلام آباد میں عدالت کے احاطے سے رینجرز نے عمران خان کو حراست میں لیتے ہوئےطاقت کا استعمال بھی کیا ، جس میں رینجرز ، وکلاء اور عام لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔


 حیرت کی بات یہ ہے کہ گرفتاری عدالت کے احاطے میں کی گئی ، بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرنے والے رینجرز نے عدالت کے ایک کمرے کا دروازہ توڑ ڈالا اور طاقت کے مظاہرے کے دوران کئی کمروں کے سیشے بھی ٹوٹ گیے ! کیا کوئی مہذب ملک یہ سوچ سکتا ہے کہ پولیس عدالتوں کے اندر گھس کر کسی کو ، وہ بھی کسی سابق وزیراعظم کو گرفتار کر سکتی ہے !  پاکستان خود کو اسلامی جمہوریہ کہتا ہے ، یعنی ایک ایسا ملک جو اسلامی اور جمہوری قدروں کا خیال رکھتا ہے ، لیکن سچ یہ ہے کہ وہاں نہ اسلام ہے اور نہ ہی جمہوریت نظر آتی ہے ۔ 



عمران خان کو پہلے تو حکومت سے بے دخل کیا گیا ، وزیراعلیٰ کی کرسی چھینی گئی ، اور ایک منتخب حکومت گرا دی گئی ۔ یہ کام کسی فوجی جنرل نے نہیں کیا ، پاکستان کے سیاست دانوں نے کیا ، گویا یہ کہ جمہوریت کی قبر کھودنے کی شروعات سیاست دانوں ہی نے کی ۔ یقیناً عمران خان کی اپنی کوتاہیاں ہیں ، غلطیاں ہیں ، انہوں نے حکومت کے قیام کے لیے ایسے سیاست دانوں سے سمجھوتہ کیا تھا جن کے لیے اپنا مفاد ، اپنے ملک کے مفاد سے بڑھ کر تھا ، وہ حکومت میں برقرار رہنے کے لیے مزید ’ ملائی ‘ کھانا چاہتے تھے ۔ عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تھی تب یہ لگ رہا تھا کہ وہ ایک نئے پاکستان کی تعمیر کریں گے ، ایک ایسے پاکستان کی تعمیر جو مذہبی شدت سے ، فرقہ واریت سے اور ہر طرح کے کرپشن سے پاک ہوگا ۔ 


امید تھی کہ وہ  اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام کے لیے اقدامات کریں گے ، لیکن وہ بھی اُسی راستے پر چل پڑے تھے جس راستے پر اُن سے پہلے کے حکمراں چلے تھے ۔ عمران خان نے بھی وہی کیا تھا جو آج شہباز شریف کی حکومت کر رہی ہے ، سیاسی حریفوں اور مخالفین کے خلاف کارروائیاں اور انہیں قید میں ڈالنا ۔ 


لیکن آج کی پاکستانی حکومت ’ بدلہ ‘ کی کارروائی میں کچھ آگے ہی بڑھ گئی ہے ۔ عمران خان کے حامیوں کی طرف سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ ہولناک ہیں ، الزام لگ رہا ہے کہ گرفتاری کے بعد عمران خان کو بُری طرح سے پیٹا گیا ہے ،  اور یہ کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ، حالانکہ اس کی کسی مصدقہ ذرائع سے کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے ، لیکن پاکستان کا ٹریک ریکارڈ اس قدر خراب ہے کہ ایسی خبروں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔


 عمران خان کو القادر ٹرسٹ معاملہ میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ، گرفتاری کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب ) کے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا ہے ، گرفتاری کے بعد انہیں  نیب کے حوالے کردیا گیا ہے جس کا کہنا ہے کہ انہیں متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے گا ، 



جب کہ اسی حوالے سے آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ نیب نے مذکورہ کیس میں یکم مئی کو وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے ۔ القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی ۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی ۔


 حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نےمارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا ۔ نیب کا کہنا ہے کہ عمران خان کو متعدد نوٹس دیے گئے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اس لیے یہ گرفتاری کی گئی ہے ۔ لیکن سوال گرفتاری کا نہیں گرفتاری کے طریقۂ کار اور وقت کا ہے ۔ پاکستان میں اس گرفتاری کے بعد تشدد کا بازار گرم ہو سکتا ہے ، لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں ، جگہ جگہ جھڑپیں شروع ہیں ۔ راولپنڈی میں لوگوں نے فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کردیا ہے ۔


 خدشہ ہے کہ کہیں پاکستان کی فوج اِن حالات کا فائدہ اٹھا کر وہاں کی بچی کچی جمہوریت کو ختم کرکے مارشل لا نہ نافذ کر دے ! ایسا ممکن ہے ۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ موجودہ حکمراں حالات کو سنبھالنے میں قطعی تاخیر نہ کریں ، حالات پر فوری طور پر قابو پائیں ، اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس اور رینجرز اور نیم فوجی دست طاقت کا کم سے کم استعمال کریں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad