یہ مسجد ہریانہ کے شہر سونی پت میں ہے، آزادی کے وقت یہاں کے رہنے والے مسلمانوں نے اپنی مسجد کو اکیلا چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی، پھر وہاں کیا تھا، یہاں کی ہندو آبادی نے اسی مسجد میں درگا مندر بنایا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج بھی مسجد کے گنبد رکھے ہوئے ہیں جو اس کے پرانے وجود کی یاد دلاتے ہیں۔
یہ صرف سونی پت کی بات نہیں، پنجاب، ہریانہ، ہماچل، دہلی، جموں، بنگال، بہار، آسام اور دیگر سرحدی علاقوں میں ایسی ہزاروں مساجد ہیں، جنہیں یا تو مندروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، یا پھر گرودواروں کے طور پر کھول دیا گیا ہے۔ اور اگر کچھ نہیں بنایا تو گائے بھینس کا طبلہ بنا دیا ہے۔
ویسے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر روز میڈیا اور بی جے پی کے مسیحا لیڈروں سے سوال کرتے ہیں جو غیر قانونی مسجد اور مقبرے کا رونا روتے ہیں کہ کیا یہ سب قانونی ہے اور ہندوستان کا کون سا قانون مذہبی مقام کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
امتیاز ندوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں