تازہ ترین

بدھ، 26 اپریل، 2023

"دو کوڑی کا آدمی" (افسانہ)

"دو کوڑی کا آدمی" (افسانہ)

کالج کے وسط میں میدان کے قریب ایک خاصا وسیع و عریض چوک تھا۔ موسم گرما کے آخری دن چل رہے تھے۔ سہ پہر کے چار بجے شدید گرمی کے دنوں میں ہم دو دوست چائے خانے پر بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ تبھی شاہنواز نے اچانک کسی بات پر برافروختہ ہو کر اپنی سیکو فائیو گھڑی میرے منھ پر پھینکتے ہوئے کہا۔ "جتنے کی یہ گھڑی ہے اتنے کے کپڑے بھی تمہارے بدن پر نہیں ہوں گے"۔ دو کوڑی کے انسان، غریب کہیں کا! کہتے ہوئے رعونت اس کے چہرے سے ٹپکنے لگی۔ غرور اس کی شکل پر برس رہا تھا۔


اس وقت اسکول و کالج کے لڑکوں کے لیے گھڑی بڑی چیز ہوا کرتی تھی۔ میں نے اپنے سات آٹھ روپیے میٹر کے حقیر ترین کپڑے اور خستہ حال جوتے کو غور سے دیکھا اور غم سے نڈھال ہو کر انتہائی نرمی سے کہا۔ بات تو تمہاری سچ ہے لیکن میں نے ایسا کیا کہہ دیا جس سے تم اس قدر خفا ہو گئے۔ دوست یار تو آپس میں ہنسی مذاق کر ہی لیا کرتے ہیں۔


 پچاس روپے ہی تو ادھار مانگے تھے نہیں دینا تھا تو خوش اسلوبی سے منع کر دیتے؟ لیکن میری ایسی تضحیک کرنا تمہیں زیبا نہیں دیتا۔ دوستوں کے ساتھ ایسا رویہ بالکل مناسب نہیں ہے اور یہ تمہارے شایان شان بھی نہیں۔ کہتے کہتے لرزتے اور کپکپاتے ہوئے آنسووں کے کئی بوند چھلک کر میری بوسیدہ قمیض پر گر پڑے۔ میری بات کا کوئی جواب نہ دے کر غصے میں اس نے اپنی گھڑی اٹھائی اور چیختا چلاّتا ہوا وہاں سے رخصت ہو گیا۔

مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ میں کتنی دیر تک چائے کی دکان پر بیٹھا رہا لیکن اب شام ہو چکی تھی۔ چائے والے منگو نے قریب آ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے ادب سے کہا۔ حضرت آپ کو یہاں بیٹھے کافی دیر ہو چکی ہے۔ کیا کالج میں کوئی الجھن ہو گئی ہے، کسی سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟ میں نے آپ کو اس قدر پریشان پہلے کبھی نہیں دیکھا؟ مجھے بھی بتائیے شاید میں آپ کی کوئی مدد کر سکوں؟


منگو کوئی چائے والا نہیں تھا۔ ہمارے ساتھ ہی اسکول میں پڑھتا تھا۔ اس کا باپ میٹرک کے بعد اپنے بیٹے کی تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ مزدور کا بیٹا جو ٹھہرا بیچارہ! کالج کا خرچ اٹھانا اب اس باپ کے بس کی بات نہیں تھی۔ دو بہنیں بیاہنے کو باقی تھیں۔ گھر کے حالات اچھے نہیں تھے۔ غربت سے تنگ آ کر اور مجبور ہو کر منگو نے اسکول کے سامنے کالج کے چوراہے پر چائے کی ایک دکان ڈال لی تھی۔


منگو کوئی جواب نہ پاکر خاموش ہو رہا۔ تھوڑی دیر بعد چائے کی ایک پیالی میری طرف بڑھاتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا۔ سنا ہے امتحان سر پر ہے اگر فارم بھرنے کے پیسے نہیں ہیں تو مجھ سے لے لو۔ میں نے آپ دونوں کی کچھ ایسی ہی گفتگو ابھی سنی تھی۔ جب گھر سے پیسے آ جائیں تو مجھے دے دیجئے گا۔ منگو کو حقیقت حال کا صحیح علم نہیں تھا۔ پھر اسے اچانک کچھ یاد آیا کہنے لگا۔ گھر میں سب خیریت تو ہے نا؟ آج آپ کچھ بول نہیں رہے ہیں۔ اس وقت سے روئے ہی جا رہے ہیں۔ ضرور کوئی بڑی مصیبت آپ پر آن پڑی ہے۔


باتوں باتوں میں پچاس روپے کا نوٹ پاکٹ میں منگو نے کب رکھ دیا مجھے پتہ بھی نہیں چلا۔ پھر بڑے پیار سے میری داڈھی میں ہاتھ ڈال کر ٹھڈی کو اوپر اٹھاتے ہوئے بولا۔ آج تو آپ بہت ہی اداس اور فکر مند ہیں جناب؟ کوئی عشق وسق کا معاملہ تو نہیں ہے؟ ویسے مجھے آپ سے ایسی امید تو نہیں؟ آنسو کے دو چار قطرے پھر کچی فرش پر گرے ہلکی سی غبار اوپر کو اٹھی اور آنسو زمین میں جذب ہو گئے۔ منگو پڑھا لکھا نوجوان تھا اور کیمپس کے سارے ہی لڑکوں سے بڑی محبت سے پیش آتا تھا۔ لڑکے بھی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ لوگ آپ سے پیار یا نفرت آپ کی عادتوں کی وجہہ سے ہی کرنے لگتے ہیں۔ جناب ایک چائے اور چلے گی کہتا ہوا دکان میں داخل ہوا اور چائے بنانے میں مشغول ہو گیا۔


سورج کی کرنیں آج پہلے سے کہیں زیادہ تلخ تھیں۔ بہار کا موسم شاید اب کے دیر سے آئے۔ پت جھڑ بھی اس بار خوب رہا۔ سارے ہی پیڑ ننگے ہو گئے ہیں، بالکل میری طرح۔ میں مخدوش سی کرسی پر بیٹھا کئی سوچوں میں گم تھا۔ چائے کب آئی اور کب ختم ہو گئی مجھے پتہ بھی نہیں چلا لیکن تکلیف بدستور باقی تھی درد اور بڑھ گیا تھا۔ مجھے میرے سینے پر اپنی بے عزتی کا بھاری بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔


تبھی سڑک پر تیز رفتار اسکوٹر دھول اڑاتا ہوا نکل گیا۔ منگو نے اسکوٹر سوار کو غور سے دیکھا اور زیر لب بڑبڑایا۔ یہ آوارہ لڑکے کس قدر تیز اسکوٹر چلاتے ہیں۔ کوئی بیچ راستے میں اچانک آکر ٹکرا گیا تو ان لونڈوں کی جان آفت میں آ جائے گی، اتفاقاً اگر کوئی مر گیا تو اس بیچارے کا کیا بنے گا؟ لیکن یہ سبق حاصل کیے بغیر کچھ سیکھتے بھی نہیں؟ یہ کہاں ماننے والے ہیں؟ انہیں ڈر بھی نہیں لگتا؟ نظریں اسکوٹر سوار کا تعاقب کرتی رہیں۔ پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے اچانک گویا ہوا اوہ! میں نے دیر سے پہچانا یہ تو آپ کا دوست شاہنواز تھا۔


منگو نے مجھے ایک اور چائے پلائی۔ بقول منگو بالکل کڑک چائے جو طبیعت کی ساری کثافت اور تکلیف کو یک لخت ہی دور کر دے۔ اب میری طبیعت قدرے بحال ہو رہی تھی۔ تبھی ایک لڑکا چوراہے سے بھاگتا ہوا چائے کی دکان پر آیا۔ اس نے چند ساعت پہلے مجھے یہاں بیٹھے دیکھا تھا اور مجھے شاہنواز کے توسط سے پہچانتا بھی تھا۔ اس نے دور سے ہی آواز لگائی اور پاس آکر مجھے جھنجھوڑتے ہوئے بولا تمہارے دوست شاہنواز کا باہر روڈ پر اسکوٹر سے ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ پولیس والے اسے پکڑ کر لے گئے ہیں وہ تھانے میں ہے، جلدی چلو۔


ہم دونوں بھاگتے ہوئے تھانہ پہنچے۔ شاہنواز کو چوٹ تو کم آئی تھی لیکن جس بوڑھے کو اس نے اسکوٹر سے دھکاّ لگایا تھا اس کے پیر سے تھوڑا بہت خون بہہ رہا تھا۔ بوڑھا زخم کی تاب نہ لاکر رو رہا تھا۔ کچھ لوگ جمع ہو گئے تھے اور اسے دلاسا دے رہے تھے اور بوڑھے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

ہم تھانے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کمرے میں داخل ہو چکے تھے۔ "حضور غلطی ہو گئی آئندہ خیال رکھوں گا کچھ لے دے کر معاملہ ختم کر لیجئے" شاہنواز کی لرزتی اور لڑکھڑاتی ہوئی آواز کمرے کے اندر سے آ رہی تھی۔ لینے دینے کا نام سن کر سپاہی بوکھلا گیا۔ پھر دانت پیستے ہوئے بولا ہر جرم کا متبادل پیسہ نہیں ہے؟ ہر غلطی کا مداوا روپیہ ہے کیا؟ بدتمیز انسان خبطی کہیں کے۔ معافی چاہتا ہوں جناب شاہنواز گڑگڑایا۔ پھر سپاہی نے آہستگی سے غصے میں منھ بنا کر کہا ”چلے بھی جاؤ اب یہاں سے“۔


میں اندر والے کمرے میں پہنچ چکا تھا۔ مجھے دیکھ کر شاہنواز کو شرمندگی کے ساتھ قدرے اطمینان حاصل ہوا۔ سپاہی اسکوٹر کے کاغذات دیکھ رہا تھا۔ کاغذ دیکھ کر کہنے لگا تمہارے انشورنس کی معیاد بھی پوری ہو چکی ہے اسے ختم ہوئے ایک ماہ گزر گیا۔ ڈرائیونگ لائسنس بنانا تو تمہارے لیے ضروری ہے نہیں؟ تمہارے ابا کہیں کسی تھانے میں داروغہ لگ رہے ہوں گے؟ تمہارا اسکوٹر ضبط ہوگا اور چالان بھی کٹے گا۔ تم نے ایک بوڑھے کو گھائل کر دیا ہے۔ وہ تو خیر ہے کہ چوٹ کم آئی اگر وہ مر جاتا یا ہڈی وغیرہ ٹوٹ جاتی تو کیا ہوتا؟ تم بدمعاش لونڈوں کو تمہارے امیر باپ آوارہ گردی کرنے کے لیے اسکوٹر تو خرید کر دے دیتے ہیں لیکن لائسنس نہیں بنواتے؟ نہ ہی اسکوٹر چلانے کی تمیز سکھاتے ہیں؟ بلاؤ اپنے باپ کو یہ اسکوٹر انہیں کے نام سے ہے۔ اس جرم کی سزا تمہیں ضرور بھگتنی پڑے گی کہتا ہوا سپاہی چیخا اور کمرے سے باہر نکل آیا اور یک لخت ہی آپے سے باہر ہو گیا۔ پھر اندر کسی کو آواز لگاتے ہوئے بولا رجسٹر لے کر جلدی باہر آو کہتا ہوا سپاہی اسکوٹر کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔


شاہنواز نے اپنی سیکو فائیو گھڑی سپاہی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ "حضور اسے رکھ لیجئے میرے پاس پیسے نہیں ہیں" مجھے برائے مہربانی چھوڑ دیجئے اور چالان نہ کیجئے۔ سپاہی تھوڑی دیر خاموش رہا پھر اس نے بڈھے کی طرف نگاہ اٹھائی بڈھا پیر پکڑے زمین پر بیٹھا اب تک آہ و زاری کر رہا تھا۔ سپاہی اپنی پیشانی پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہنے لگا۔ افسوس میں اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا؟ گھڑی نہیں چلے گی سو روپے دینے ہوں گے۔ 

یہ سن کر شاہنواز کو کچھ ڈھارس بندھی اس نے برجستہ کہا حضور سو تو بہت زیادہ ہے بیس پچیس سے کام چلا لیجئے۔ سپاہی غصے میں ہکلاتے ہوئے اور بل کھاتے ہوئے بولا۔ نہیں بالکل نہیں پچاس سے کم نہیں ہوگا۔ تمہیں جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ دو چار دن جیل میں چکی پیسو گے تو تمہاری عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ تمہارے جیسے کتنے آوارہ لونڈوں کو میں نے ٹھیک کر دیا ہے۔ شاہنواز نے معافی مانگتے ہوئے پاکٹ میں ہاتھ ڈالا لیکن جیب سے پرس غائب تھا۔ دس اور بیس کے ایک نوٹ اوپر کی جیب میں نظر آئے۔ شاہنواز نے دونوں نوٹ سپاہی کی طرف بڑھایا جسے دیکھ کر سپاہی نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔

پھر سپاہی نے چمچماتی ہوئی سیکو فائیو گھڑی پر ایک نظر دوڑائی اسے بغور دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا سودا تو اچھا ہے۔ میں تمہیں اس بار چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن خیال رہے اگر آئندہ ایسی غلطی دوبارہ ہوئی تو جیل جاؤ گے تب تمہارے ہوش بالکل ہی درست ہو جائیں گے۔ میں نے تمہاری شکایت پہلے بھی سن رکھی ہے۔ اس قدر تیز اسکوٹر چلانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اپنی اور دوسروں کی جان کے دشمن اوباش لونڈے، کہتا ہوا سپاہی برآمدے میں جا کر ایک ٹیبل پر بیٹھ گیا۔

میں نے اپنی جیب میں اس امید سے ہاتھ ڈالا کہ شاید کچھ روپیہ نکل آئے تاکہ ملا کر سپاہی کو دے دیا جائے۔ اچانک میری جیب میں پچاس کا لپٹا ہوا ایک نوٹ مجھے ملا۔ میں نے حیرت سے نوٹ کو کئی بار دیکھا اور کچھ سوچتا ہوا مؤدبانہ لہجے میں سپاہی سے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا اور پچاس روپے سپاہی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ حضور گستاخی معاف ہو میرے دوست کی گھڑی واپس کر دیجئے۔ سپاہی چند دقیقہ الٹ پلٹ کر نوٹ کو غور سے دیکھتا رہا پھر گھڑی شاہنواز کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔ خیال رہے آئندہ پکڑے گئے تو خیر نہیں۔

ہم جیل سے اسکوٹر لے کر تھوڑی دیر کو بوڑھے کے پاس کھڑے ہو گئے۔ اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک مجھے میرے کاندھے پر ایک تھرتھراتے ہوئے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ شاہنواز کے چہرے پر اس طنز و تشنیع کا دکھ عیاں تھا۔ لرزتے ہوئے ہونٹھ کچھ بولنے سے قاصر تھے۔ جھکی ہوئی نظریں کچھ کہنا چاہتی تھیں لیکن الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ فضا پر گہری خاموشی تھی اور آسمان پر عجیب سا دھندلکا چھایا ہوا تھا۔ پورب سے ہلکی ہوا بہہ رہی تھی۔ ہوا میں خنکی کا احساس نمایاں تھا۔ سورج غروب ہو چکا تھا اور اس کی تپش ماند پڑ گئی تھی۔ دن بھر کی شدید گرمی کے بعد ماحول پر سکون اور ٹھنڈا ہو گیا تھا۔

بوڑھا اب تک اپنا زخمی ٹانگ لیے تھانے کے چبوترے پر بیٹھا درد سے کراہ رہا تھا۔ سپاہی نے بوڑھے کو اشارے سے پاس بلایا اور پچاس روپیہ اسے دیتے ہوئے کہا۔ بابا جاؤ بازار میں کسی ڈاکٹر سے مرہم پٹی کروا لینا۔ چوٹ زیادہ نہیں لگی ہے۔ بچے نے معافی مانگ لی ہے۔ بچہ ہے اس عمر میں غلطیاں ہو جاتی ہیں۔

بوڑھے نے سپاہی کو حیرت سے دیکھا اور کافی دیر ہمیں تکتا رہا۔ پھر پچاس روپے کے نوٹ پر ایک نظر ڈالی فورآ اٹھ کھڑا ہوا اور بازار کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا چل پڑا اس کے ٹانگوں میں بلا کی طاقت تھی اس کے قدم بازار کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔

بقلم: تاج الدین محمد، جامعہ نگر، نئی دہلی۲۵

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad