تازہ ترین

جمعرات، 13 اپریل، 2023

مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی : ایک تاریخ ساز شخصیت


مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی  : ایک تاریخ ساز شخصیت

شاہ عمران حسن، نئی دہلی

مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی اُن خوش نصیب شخصیات میں سے ایک تھے، جنھیں اپنے ماموں مولاناعلی میاں کی تربیت وسرپرستی میں رہنے کا موقع ملا۔اگر یہ بات کہی جائے کہ انھوں اپنے بھائیوں میں اپنے ماموں سے سب سے زیادہ استفادہ کیا تو یہ بات عین درست ہوگی ۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں مولانا عبداللہ عباس ندوی لکھتے ہیں: مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی خود مولاناسید ابوالحسن علی ندوی کی تصویر ہیں اور تصویر مجسم ہیں ، صورت شکل بھی مولاناسے مل گئی ہے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش کا نمونہ ہے کہ مولانا کو ایسا جانشین دیا جو بلا نزاع ان کا آئینہ ہے۔(مولانا سیدابوالحسن علی ندوی: عہد ساز شخصیت ،مولاناعبداللہ عباس ندوی، صفحہ:22)
یہ حقیقت ہے کہ مولانا علی میاں نے زیر تربیت افراد کی ایک پوری ٹیم چھوڑی ہے جوان کے بعد ان کے کاموں کو بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں،ان میں سے اہم ترین نام‘ مولاناسیدمحمد رابع حسنی ندوی’ کاہے جن کی تحریروتقریرسے عالمِ اسلام نہ صرف واقف ہے بلکہ جن سے استفادہ بھی کر رہا ہے۔وہ اپنی اعتدال پسندی اور غیر متنازع شخصیت ہونے کے سبب ہر مسلک و مشرب میں نہاہت ہی عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ فطری سی بات ہے کہ آدمی ان کے حالات وواقعات بھی جاننا چاہتا ہے ،اس لیے ذیل میں ان کی زندگی کا مختصر سامنظر نامہ پیش کیا جارہا ہے ۔


مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی کی پیدائش25 اکتوبر1929 ء تکیہ کلاں(رائے بریلی) میں ہوئی ۔ ان کے والد کا نام سیدرشیداحمدحسنی تھا اور والدہ کانام سیدہ امتہ العزیز تھا۔ ان کی والدہ مولاناعلی میاں کی بڑی ہمشیرہ تھیں۔


آج بتاریخ 13 اپریل 2023 کو مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی  کا انتقال لمبی علالت کے بعد لکھنو میں94 سال کی عمر میں ہوگیا۔

مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی نے اپنی ابتدائی تعلیم خاندانی روایت کے مطابق رائے بریلی کے اپنے خاندانی مکتب میں حاصل کی ،اس کے بعد ان کا داخلہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ہوا، جہاں سے انھوں نے 1948ء میں فراغت حاصل کی ،دریں اثناانھوں نے دارالعلوم دیوبند میں بھی ایک سالہ کورس کیا ۔1949 ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ کے شعبہ ادب عربی میں بحیثیت معاون اُستاد مقرر ہوئے ۔دو سال(1950-1951) تک انھوں نے حجازمقدس میں علمی استفادہ کے لیے اپناوقت گزارا، جہاں کے علماء ادبا ،علمی شخصیات اور وہاں کے کتب خانوں سے استفادہ کیا۔


سنہ1952ء میں وہ ہندوستان واپس آئے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء میں عربی ادب کادرس دینے لگے ۔ 1955 ء میں انھیں شعبہ ادب عربی کاصدر بنایاگیا۔ 1970 ء میں عمیدکلیتہ اللغۃ العربیہ دارالعلوم ندوۃ العلماء مقررہوئے ۔ 1993ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا منصب اہتمام ان کے سُپرد کیاگیا ۔1998 ء میں انھیں نائب ناظم بنایاگیااور مولاناعلی میاں کی وفات کے بعد متفقہ طورپر انھیں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا ناظم بنایاگیا۔


مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور بنانے سنوارنے میں نہ صرف ان کے بڑے ماموں ڈاکٹر سیدعبدالعلی حسنی کا ہاتھ رہا بلکہ چھوٹے ماموں یعنی مولاناعلی میاں کا بھی انھیں بہت زیادہ تعاون ملا۔ انھوں نے بھی ان کی تعلیم وتربیت میں خاص دھیان دیا۔جب مولاناعلی میاں حج کے سفر پر گئے تھے اس وقت ڈاکٹرسیدعبدالعلی حسنی نے مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی کو یک سالہ تعلیم کے لیے دیوبند بھیجا اور اس کے تمام اخراجات خود برداشت کئے ۔

ڈاکٹرسیدعبدالعلی حسنی روز مرہ کی زندگی کے کام کرتے ہوئے اپنے بچوں اور اپنے رشتہ داروں کے بچوں کی تربیت کرتے رہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بچوں نے اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ اپنا قدم علم کی دنیا میں رکھا اور دنیا والوں کے لیے علم کا ذریعہ بنے ۔

مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی نے متعدد مرتبہ اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت میں ان کے دونوں ماموں کاحصہ رہا ہے ۔ اگرچہ چھوٹے ماموں یعنی مولاناعلی میاں کی نگاہ شفقت انھیں زیادہ ملی ،یہی وجہ ہے کہ مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی لکھتے ہیں:‘مجھ کو اپنے چھوٹے ماموں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی نگرانی اور سرپرستی کازیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا،بلکہ میری تعلیم کا خاصا حصہ براہِ راست ان کی استادی میں گزرا اورپھر شاید اسی مناسبت سے بعد میں مجھ کو ان کی علمی مشغولیتوں میں خدمت اور تعاون کی سعادت بھی زیادہ ملی اورعربی سے تعلق کے کاموں میں خدمت اور ذیلی طورپر تعاون دینے کا موقع ملا،اور باہر کے سفروں میں جوزیادہ تربلادعربیہ میں ہوئے ، اکثرساتھ رہنے کا موقع ملا۔


 ان کے علمی مسودادت کو صاف کرنے اور پروف دیکھنے اور طباعت و اشاعت کے سلسلے میں جو خدمت درکارتھی ،اس میں بھی خاصی حدتک لگنا ہوا۔ اس طریقہ سے ان کے ساتھ رہنے اور ان کومختلف موقعوں پر کام کرنے اور کسی مسئلہ میں رائے رکھنے سے واقفیت کا موقع ملا،اور ان خدمت سے بڑی حدتک ان کے اطمینان ورضامندی کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک طرف مجھے ان کا بھانجہ ہونے کی وجہ سے شفقت حاصل رہی دوسری طرف شاگردی کا تعلق ہونے کی وجہ سے عقیدت حاصل ہوئی اور تیسری طرف ان کے کاموں میں خدمت کا شرف حاصل ہونے سے ذیلی منا سبت بھی حاصل ہوئی۔’ ( مولانا سید ابو الحسن علی ندوی : عہدسازشخصیت مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں، مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی ، صفحہ: 18-19)


مولاناعلی میاں کی تربیت میں رہ کرانھوں نے جو چیز سیکھی ان میں سے ایک چیز تھی کہ ہر انسان سے محبت کرنا اور ہر انسان کو برابر سمجھنا ہے۔اپنے کو بڑا نہ سمجھنا اور جوکسی بھی ضرورت کے لیے ان سے مدد مانگے ،ان کی مددضرور کرنا ۔ اس کی ایک واقعاتی مثال میں اپنی زندگی سے دینا چاہتا ہوں۔ میں نے مختلف مراحل کے سلسلے میں مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی کو کئی خطوط لکھے اور ہر خط کا جواب انھوں نے اپنے دستخط کے ساتھ دیا۔فروری2006ء کے پہلے ہفتہ میں نے مولانا وحیدالدین خاں کے سلسلے میں ایک خط لکھا تھا اور ان سے مولاناموصوف کے متعلق رائے پوچھی تھی ۔ مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی نے اپنے دستخط کے ساتھ جو جواب دیا،وہ یہاں نقل کررہا ہوں تاکہ سند رہے:


مکرمی جناب شاہ عمران حسن صاحب زید لطفہ  السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا خط بصورت پوسٹ کارڈ مجھے موصول ہوا۔ رمضان کا مہینہ تھا ۔میں جلد جواب نہ دے سکا۔
آپ نے مجھ سے مولاناوحیدالدین خاں صاحب کے بارے میں رائے معلوم کی ہے ۔ ماہنامہ ‘الرسالہ’میرے پاس نہیں آتا ہے ،میرے پاس اس کے شمارے بھی نہیں ہیں۔اس طرح وہ میرے مطالعہ میں نہیں آتا۔لہٰذااس میں شائع ہونے والی باتوں سے میں واقف نہیں ہوں۔لہٰذا اس میں طبع ہونے والی باتوں کے بارے میں کوئی رائے بھی نہیں دے سکتا۔مولاناوحیدالدین خاں سے میری ملاقات بھی عرصہ سے نہیں ہوئی ہے ۔ وہ بہت عرصہ قبل جب علم جدید کا چیلنج(مذہب اور جدید چیلنج)تصنیف کررہے تھے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تھی ۔جس کو کئی دہائی کا عرصہ گزرا،لکھنؤ سے جانے کے بعد رابطہ نہیں رہا؛اس لیے مجھ سے ان کے متعلق رائے معلوم کرنا زائد از ضرورت بات ہے ۔


دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ والسلام 
8شوال1427 ہجری مطابق 31 مارچ2006ء محمدرابع حسنی ندوی
اسی طرح جب میں نے مولانامنت اللہ رحمانی پر لکھی جانے والی اپنی کتاب‘حیات ِ رحمانی’(شائع شدہ:2012ء) کے لیے ان سے پیغام لکھنے کی درخواست کی تو انھوں نے فوراً اپنے دستخط کے ساتھ ایک پیغام ارسال کیا جو کہ کتاب مذکورہ میں شامل ہے ۔ اس تاریخی پیغام کو یہاں نقل کیا جاتا ہے :

مکرمی جناب شاہ عمران حسن صاحب   السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا خط (3جنوری2007ء) ملا۔ اِس میں آپ نے اپنی تصنیف ‘حیاتِ رحمانی’ کا ذکر کیا ہے، جو آپ نے مولانا منت اللہ رحمانی کی شخصیت پر تیار کی ہے۔ یہ کام آپ نے بہت اچھا کیا ہے۔ مولانا منت اللہ رحمانی بڑی شخصیت کے مالک تھے۔ امت مسلمہ کے لیے اُنھوں نے بڑی قابلِ قدر رہنمائی کا کام انجام دیا اور باطنی اصلاح وارشاد کا کام بھی موثر ڈھنگ سے انجام دیا۔ وہ مسلمانوں کے قائدین اور مفکرین میں سے تھے، اُن کی شخصیت سے واقفیت حاصل کرکے اُن کی خوبیوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔


 والسلام ،19؍1؍1428ہجری،   محمد رابع حسنی ندوی
مطابق 18؍فروری2007 ء دار العلوم ندوۃ العلماء ، لکھنؤ
(حیاتِ رحمانی ، شاہ عمران حسن ، صفحہ :10،اشاعت اوّل:2012،ناشر :رہبربک سروس،نئی دہلی)

 مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی اِنہی گونا گوخوبیوں کی وجہ سے ہر طبقہ میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں،جہاں وہ بڑوں کی ضرورتوں کاخیال رکھتے ہیں وہیں وہ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنا بھی خوب جانتے ہیں ،جس کی بین مثال میری پہلی کتاب‘حیاتِ رحمانی’ کے لیے لکھے گئے ان کے پیغام میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی کو تصنیف وتالیف سے بھی دلچسپی ہے ، انھوں نے عربی اوراُردو میں 30سے زائد کتابیں تصنیف شائع ہوکر مقبول خاص وعام ہوچکی ہیں۔انھوں نے 1959ء میں ایک عربی مجلہ ‘الراعد’جاری کیا ،جس کی اشاعت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔

 عربی داں اہل علم کے علاوہ طلبہ بھی بڑی تعداد میں اس کا مطالعہ و استفادہ کرتے ہیں۔عربی زبان و ادب کی تئیں خدمات انجام دینے کے اعتراف میں اُنھیں1982ء میں صدر ِ جمہوریہ ایوارڈ مل چکا ہے۔
مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی دارالعلوم ندۃ العلماء کی ذمہ داریوں کو اداکرنے کے ساتھ ہند وستان کے مختلف اداروں مثلاً آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ،رابطہ ادب اسلامی ، مجلس تحقیقات و نشریات ِاسلام، مجلس صحافت و نشریات، دینی تعلیمی کونسل، دارِ عرفات، رابطہ عالم اسلامی ، دارالمصنفین ،آکسفورڈ سنٹر فاراسلامک اسٹڈیز، مولانامحمدثانی میموریل سوسائٹی،مولاناعبدالباری سوسائٹی ،مولاناابوالکلاآزاداکیڈمی ،تحریک پیامِ انسانیت ، مولاناابوالحسن اکیڈمی وغیرہ بھی وابستہ ہیں اور اُن اداروں کو مسلسل اپنا تعاون دیتے رہتے ہیں۔


مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی کا نکاح ڈاکٹر سیدعبدالعلی حسنی کی صاحبزادی سیدہ رقیہ سے ہوا۔اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک بیٹی سے نوازا اس کا نام سیدہ ہاجرہ حسنی ہے۔انھیں شعر وادب سے بھی لگاؤ ہے ،وہ اشعار موزوں کرتی ہیں۔مولاناعلی میاں کی وفات پر انھوں نے ایک نظم لکھی جو کہ زیر نظر کتاب میں شاملِ اشاعت ہے ۔


مولاناسید محمدرابع حسنی ندوی کی اہلیہ سیدہ رقیہ صوم و صلوٰۃ کی پابند اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ ان کی زندگی پربھی ان کی والد ڈاکٹر سیدعبدالعلی حسنی کازبردست اثرہوا۔ انھوں نے اپنے شوہر کا پورا ساتھ دیا ۔آخر میں ان کی صحت خراب ہوگئی تھی بالآخروہ9فروری1996ء کو انتقال کرگئیں ۔ اہلیہ کے انتقال کے محض4 دن بعد 13 فروری 1996 ء کو مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی کی والدہ ماجدہ سیدہ امتہ العزیز کا بھی انتقال ہواتھا ۔ ایک ہفتے میں دو دو جانکاہ ذاتی حادثے پیش آئے، انھوں نے اسے مشیت ِ ایزدی سمجھ کر قبول کرلیا اور اپنا سب کام حسب معمول کرتے رہے ۔ 


موت ایک ایسی حقیقت ہے جس آگے سبھی کو سرِ تسلم خم کرنا پڑتا ہے ۔
مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی جیسی نابغہ روزگارشخصیت پر نہ صرف جامع مضمون لکھنے کی ضرورت ہے بلکہ ان پر مسقتل کتاب لکھی جانی چائے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی خدمات کو جان سکیں اور اپنے لیے کوئی لائحہ عمل تیارکر سکیں، جب تک نئی نسلوں کو ان کے اسلاف کی کارکردگی کے بارے میں نہیں بتایاجائے گاتب تک ان کے اندر کام کرنے جذبہ نہیں اُبھر سکتا۔


مجھے اعتراف ہے کہ میں نے یہاں مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی کے بارے میں معلومات درج کرتے وقت بہت اختصارسے کام لیا ہے تاہم میں نے طوالت کے خوف سے ایسا کیاگیاہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad